پیپلزپارٹی کی سیاست میں تبدیلی نظر آرہی ہے۔ حکومت کے خاتمے کے بعد اب انتخابات کے لیے پیپلزپارٹی ایک نئی شکل اور ایک نئی پالیسی کے ساتھ عوام کے سامنے آنے کی کوشش کر رہی ہے۔
میں اسے کوئی غلط پالیسی نہیں سمجھتا۔ لیکن اس کوشش میں آپ جن کاموں میں حصہ دار رہے ہیں، ان سے انکار درست نہیں ہے۔ آپ نئے وعدے کر سکتے ہیں لیکن پرانی کارکردگی سے انکار ممکن نہیں ہے۔
آپ مردم شماری اور انتخابات میں تاخیر کا معاملہ ہی لے لیں، سندھ کے وزیر اعلی مراد علی شاہ نے مشترکہ مفادات کونسل میں نئی مردم شماری کے حق میں ووٹ ڈالا۔ ان کے ووٹ کی وجہ سے ہی نئی مردم شماری منظور ہوئی، اگر پیپلزپارٹی ووٹ نہ ڈالتی تو نئی مردم شماری منظور نہ ہوتی۔
نئی مردم شماری کی وجہ سے ہی آج نئی حلقہ بندیوں کی بات ہے، اگر پیپلزپارٹی ووٹ نہ ڈالتی تو آج انتخابات پرانی مردم شماری پر ہی ہورہے ہوتے اور حلقہ بندیوں کی وجہ سے تاخیر کی بھی کوئی بات نہ ہوتی لیکن آج پیپلزپارٹی ایسے بات کر رہی ہے جیسے ان کا اس میں کوئی قصور ہی نہیں ہے اور نوے دن میں انتخابات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
پیپلزپارٹی کی یہ منطق بھی نا قابل فہم ہے کہ ہمیں تو نئی مرد م شماری پر مشترکہ مفادات کونسل میں ووٹ ڈالتے وقت اس بات کا اندازہ ہی نہیں تھا، انتخابات میں تاخیر ہو جائے گی۔ پیپلزپارٹی پاکستان کی ایک پرانی سیاسی جماعت ہے، جسے آئین وقانون کی بہت سمجھ ہے۔ اس میں آئینی ماہرین کی تعداد بھی زیادہ ہے۔
آئین کی سربلندی کی بہت بات بھی کی جاتی ہے، تو کیا یہ مانا جا سکتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی قیادت کو یہ علم نہیں تھا کہ نئی مردم شماری کے حق میں ووٹ ڈالنے پر ملک میں انتخابات میں تاخیر ہو جائے گی۔
کیا پیپلزپارٹی اتنی بھولی ہے کہ اسے علم ہی نہیں تھا، اس کے ووٹ ڈالنے سے انتخابات میں تاخیر ہو جائے گی۔ یقینا ایسا نہیں ہے۔ انھیں علم تھا۔ لیکن آج وہ عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ تو نوے دن میں انتخابات کے حق میں ہیں۔ جب کہ دوسری طرف وہ تاخیر کے لیے ووٹ بھی ڈال چکے ہیں۔
آئین میں واضح لکھا ہے کہ اگر نئی مردم شماری منظور ہو جائے گی تو نئی حلقہ بندیوں کے بعد ہی انتخابات ہوںگے۔ کون انھیں ماورا آئین کوئی یقین دہانی کرا سکتا ہے۔
پیپلزپارٹی یہ کیسے مان سکتی ہے کہ آئین شکنی کر کے ملک میں انتخابات کروا سکتے ہیں۔ یقینا انھیں ایسی کوئی یقین دہانی کرائی ہی نہیں جا سکتی ہے اور اب پیپلزپارٹی ایک بیانیہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے کہ وہ تو بروقت انتخابات کے حق میں ہے، وہ تاخیر کی ذمے دار نہیں ہے۔
ایک سوال ہے کہ پیپلزپارٹی ایسا کیوں کر رہی ہے؟ ایک رائے یہ ہے کہ اگلے انتخابات میں وزارت عظمی کی گیم پیپلزپارٹی کے ہاتھ سے نکل گئی ہے۔ ان کی ساری گیم الٹ گئی ہے۔ وہ پنجاب میں جن کامیابیوں کی امید لگائے بیٹھے تھے ان کو وہ حاصل نہیں ہوئی ہیں۔ ان کو گلہ ہے کہ مقتدر حلقوں نے ان کی وہ مدد نہیں کی جس کی انھیں امید تھی۔
کیا پیپلز پارٹی نوے دن کا مطالبہ کر کے ملک کی اسٹبلشمنٹ سے اپنی ناراضی کا اظہار کر رہی ہے؟ کیا پیپلزپارٹی کا خیال ہے کہ جیسے جیسے وہ نوے دن میں انتخابات پر زور دیں گے ویسے ویسے ان کی بارگیننگ طاقت بڑھے گی اور اسٹبلشمنٹ ان سے بات کرنے پر مجبور ہو جائے گی اور وہ اپنی بات منوانے کی پوزیشن میں آجائیں گے۔
پیپلزپارٹی کا بلوچستان کے حوالے سے بھی یہی روڈ میپ تھا کہ وہاں سے بھی انتخاب جیتنے والے لوگ پیپلزپارٹی میں شامل ہو جائیں۔ باپ پارٹی میں توڑ پھوڑ کا بھی پیپلزپارٹی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ آصف زرداری کی کوشش تھی کی باپ پارٹی اب پیپلزپارٹی میں شامل ہو جائے۔
اسی لیے بلوچستان کے وزیر اعلی قدوس بزنجو کو پیپلزپارٹی میں شامل کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی۔ لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔ جام کمال گروپ نے ن لیگ کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔ جو آصف زرداری کے لیے ایک جھٹکا تھا۔
بلوچستان میں ناکامی کا بھی بہت غصہ ہے اور اب اسی غصہ کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ لیکن کیا پیپلزپارٹی کو کوئی فائدہ ہوگا؟ کیا جن کاموں میں آپ شریک رہے ہیں، ان سے انکار کوئی اچھی پالیسی ہے۔ کیا لوگ یقین کر لیں گے؟ لوگ کہیں گے کہ آپ نے ووٹ دیا، آپ کیسے یہ بات کر سکتے ہیں۔ کیا پیپلزپارٹی کو معذرت کرنا ہوگی یا وہ سمجھتے ہیں کہ معاملہ چل جائے گا، ووٹ بھی دیا اور انکار بھی کریں گے، یہی پاکستان کی سیاست ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس