مہنگائی سے بلبلاتے ہوئے عوام سڑکوں پر ہیں اور آج ملک کے حالات دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔
بڑی حسرت سے پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں کہ وہ کون سا سال تھا جب پاکستان ایک ہنستا بستا، مستحکم، مضبوط اور خوشحال ملک تھا، جو تیزی سے ترقی کا سفر طے کرتے ہوئے منزل کی جانب بڑھ رہا تھا،کیا وہ 2022 تھا؟ہرگز نہیں، کیا وہ 2021 تھا؟بالکل نہیں،کیا 2020 تھا؟بالکل بھی نہیں،کیا 2019 یا 2018میں ملک مستحکم اور مضبوط تھا؟ اس کا جواب بھی ناں میں ہے۔
اچھا تو پھر 2017 میں پاکستان کیسا تھا؟ اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے کہ صرف چھ سال پہلے 2017 میں ہمارا پاکستان مستحکم بھی تھا، مضبوط بھی تھا، خوشحال بھی تھا، پٹرول اور ڈالر کنٹرول میں تھے اور مہنگائی نہ ہونے کے برابر تھی۔
ہم آئی ایم ایف کے شکنجے سے مکمل طور پر باہر آچکے تھے اور دنیا میں پاکستان کی بے پناہ عزت و تکریم تھی اور پھر اس ہنستے بستے پاکستان کے خلاف ایک شیطانی کھیل کھیلا گیا اور ایک گھنانی سازش کے ذریعے، عدلیہ کے ذریعے ملک کے منتخب وزیراعظم کو پہلے نااہل کرایا گیا اور پھر ایک انتہائی مضحکہ خیز بنیاد پر سزا دلوا دی گئی ، یوں ریاست ِپاکستان عدم استحکام کا شکار ہو گئی، اس دن کے بعد سے پاکستان کو استحکام نصیب نہیں ہوا۔
یہ جو کچھ ہم آج دیکھ رہے ہیں، یہ اسی شیطانی کھیل کا نتیجہ ہے، ملک کو غیر مستحکم، بے توقیر اور برباد کرنے کی اس شیطانی سازش کے مہرے جس میں عدلیہ میں بھی تھے اور اسٹیبلشمنٹ میں بھی، سیاستدان بھی تھے اور بیوروکریٹ بھی، سب قوم کے مجرم ہیں، ان سب کو کٹہرے میں لانا اور عبرت کا نشان بنانا ہو گا۔
ملکی معیشت کی زبوں حالی اتنی تشویشناک نہیں جتنی عوام کے اندر پیدا ہو جانے والی غلامانہ سوچ خطرناک ہے۔ یہ انتہائی خطرناک بیماری ہے بلکہ مہلک مرض ہے جو اکثر جان لیوا ثابت ہوتا ہے، جب سے بھارت نے خلائی کامیابی حاصل کی ہے، یہ غلامانہ سوچ اور بد ترین قسم کا احساس کمتری کھل کر سامنے آیا ہے، لوگ اپنا اور اپنے ملک کا مذاق اڑا رہے ہیں جو ان کے احساسِ شکست اور احساسِ کمتری کی عکاسی کرتا ہے۔ پاکستانی باشندوں میں احساسِ شکست اور کمتر ہونے کا گمان پیدا کرنے میں بیرونی طاقتوں کی سرمایہ کاری اور محنت بھی شامل ہے۔
آج وہ طاقتیں خصوصا بھارت مطلوبہ نتائج ملنے پر بہت خوش ہوگا۔ ہندوستان کی خلائی کامیابی پر کچھ پاکستانیوں کا ردعمل حیران کن تھا،کوئی مبارک باد دے رہا تھا اور کوئی قوم کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہاتھا کہ اب ہندوستان کی برتری تسلیم کر لی جائے۔
سماج میں ہر شخص کے کسی دوسرے شخص یا کولیگ سے تعلقات خراب ہو جاتے ہیں، کیا آپ اپنے شہر یا محلے یا محکمے میں اپنے مخالف کو اس کی کسی کامیابی پر مبارکباد دیتے ہیں؟ ہر گز نہیں۔ اگر اپنے ذاتی مخالف کے معاملے میں آپ ایسی فراخ دلی کا مظاہرہ نہیں کرتے تو ریاست کے مخالف پر اتنی محبتیں نچھاور کرنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں؟
کاش ہمارے درمیان مخاصمت ختم ہوچکی ہوتی، کاش ہمارے اور ہندوستان کے تعلقات کینیڈا اور امریکا جیسے ہوتے مگر ایسا نہیں ہے اور یہ بات تلخ سہی مگر ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اس بد خواہ ہمسائے نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کبھی کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا، یہ ہر عالمی فورم پر پاکستان کو بدنام اور بے توقیر کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔
وطنِ عزیز کے بارے میں موجودہ بھارتی قیادت کے عزائم تو بڑے ہی مذموم، جارحانہ اور خطرناک ہیں،بھارت علی الاعلان اپنے ملک میں مسلمانوں کی نسل کشی کررہا ہے، ہندوستان میں ان کا مذہبی اور ثقافتی تشخص ختم کردیا گیا ہے اور اب تو بھارت میں مسلمانوں کا جینا بھی بے حد مشکل بنا دیا گیا ہے۔
اسی بھارت نے جنت نظیر کشمیر کو قبرستان بنا دیا ہے لہذا ہمیں کس بات کے چاو چڑھے ہوئے ہیں کہ اس کی خلائی کامیابی پر غلاموں کی طرح بھنگڑے ڈال رہے ہیں۔ معیشت کمزور ہونے اور مہنگائی بڑھ جانے سے قومیں بے حمیت نہیں ہو جاتیں، زندہ قومیں اس آزادی کے لیے کئی نسلیں قربان کر دیتی ہیں جو بھارت ہم سے چھیننا چاہتا ہے۔ کئی نیم خواندہ خواتین و حضرات سوشل میڈیا پر لکھ رہے ہیں کہ اخلاق کا تقاضا ہے کہ ہمسائے کو مبارکباد دی جائے۔
انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ انفرادی تعلقات میں سماجی اقدار کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے اور ضرور رکھا جانا چاہیے مگر ریاستی تعلقات میں صرف ملک کا مفاد دیکھا جاتا ہے اور وہی سب سے عزیز ہونا چاہیے۔ اور یہاں تو معاملہ اس ملک کا ہے جو اخلاقی کیا، انسانی اقدار کو ہر روز پاؤں تلے روندتا ہے اور جس کا وزیراعظم ہزاروں مسلمانوں کا قاتل ہے۔
چین اس ہمسائے کا اتنا زخم خوردہ نہیں ہے جتنا ہم ہیں مگر چین نے ہندوستان کو کوئی مبارک باد نہیں دی، ایران اسرائیل کو اس کی کامیابیوں پر مبارکباد کیوں نہیں دیتا ؟ اس لیے کہ وہ جرات مند ملک ہے اور ان کی قومی شان اور ملکی مفاد انھیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ پاکستان کے وزیرخارجہ نے مبارک نہیں دی تو درست کیا ہے۔
اگر آج ہمارے اقتصادی حالات خراب ہیں تو کل یا پرسوں انشااللہ ٹھیک بھی ہو جائیں گے، وطنِ عزیز کے کبھی بہت اچھے حالات بھی توتھے، کبھی ہم چین اور جرمنی کو بھی قرضے دیا کرتے تھے۔ پاکستانی پارلیمینٹیرنیز کے ایک حالیہ دورے کے دوران چین کے اعلی حکام نے انھیں بتایا کہ 1980تک ہمیں کسی پروجیکٹ کا پی سی ون بنانا نہیں آتا تھا، لہذا اس کے لیے ہم نے پاکستان سے رابطہ کیا اور پھر ہمارے لوگوں کی کراچی میں ٹریننگ کرائی گئی۔
ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ہم کوریا سمیت بہت سے ملکوں کے لیے رول ماڈل تھے۔ 1960 کی دہائی میں پاکستان ساتھ ایشیا کا واحد ملک تھا جس نے خلا میں راکٹ بھیجا تھا. اسوقت ہم اسپیس ٹیکنالوجی میں پورے خطے میں سب سے آگے تھے۔ اگر ہم 1960 کی دہائی میں پورے خطے کو لیڈ کررہے تھے تو انشا اللہ پھر سب کو پچھاڑ کر آگے نکلیں گے، دوسری جنگِ عظیم میں جرمنی اور جاپان مکمل طور پر تباہ ہوگئے تھے، ان پر تو دشمنوں کا قبضہ ہوگیا مگر وہاں کے باشندوں نے اپنے ذہنوں پر قبضہ نہیں ہونے دیا،انھوں نے ذہنی غلامی قبول کرنے سے انکار کردیا۔
کیا وہاں کے نوجوان ملک چھوڑ کر بھاگ گئے تھے؟ نہیں! انھوں نے اپنے ملکوں کے تباہ شدہ ملبے پر کھڑے ہو کر عہد کیا کہ ہم دن رات ایک کر کے اپنے ملکوں کو پھر عظیم تر بنائیں گے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ چند ہی سالوں میں جاپان دنیا کی اقتصادی سپر پاور بنا اور جرمنی پورے یورپ کا چوہدری بن گیا۔ ہم بھی ایشیا کا ٹائیگر بنیں گے۔مگر اس کے لیے مایوسی اور احساسِ کمتری سے چھٹکارا حاصل کرنا لازم ہے۔
اس ضمن میںسب سے موثر نسخہ کلامِ اقبال ہے۔ نئی نسل کو فکرِ اقبال سے روشناس کرانا ہوگا اور انھیں بتانا ہوگا کہ ہمارے شاعر نے یہ کہہ کر اس وقت اپنے نوجوانوں کو ستاروں پر کمندیں ڈالنے اور چاند کو مسخر کرنے کی ترغیب دی تھی جب چاند پر پہنچنا امریکا سمیت کسی ملک کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا:
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
اقبال تو سو سال پہلے مسلمانوں کو سورج، چاند اور ستاروں کو اپنا مطیع و فرمانبردار بنانے کا سبق دیتے رہے :
مہر و مہہ و انجم نہیں محکوم ترے کیوں
کیوں تیری نگاہوں سے لرزتے نہیں افلاک
کسی ملک کی کامیابی پر ہمیںگھبرانے یا گھبرا کر غلامانہ سوچ کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ جس طرح ہم نے 1998 میں ایٹمی قوت بن کر ہمسایہ ملک کو جواب دیا تھا، اسی طرح انشا اللہ ہم خلائی کامیابیاں حاصل کرکے اسے ضرور جواب دیں گے۔ہاں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ سیاسی، عسکری اور عدالتی قیادت سر جوڑ کر بیٹھے، ntrospection ہو، بربادی کے ذمے داروں کا تعین ہو، آئین اور قانون کی وہ شقیں جو صرف اشرافیہ کو تحفظ دیتی ہیں، انھیں تبدیل کیا جائے اور ایک نئے جوش اور ولولے سے سفر شروع کیا جائے۔
مگر اس کے لیے سب سے پہلے ملک سے محبت کرنے والی بے لوث، باکردار، باصلاحیت اور جرات مند قیادت اور درست ترجیحات کی ضرورت ہے، ایسی قیادت تب ملے گی جب قیادت کے انتخاب کے وقت ہماری سوچ کم از کم اتنی mature ہوگی جتنی بھارتی عوام کی ہے، انھوں نے شکل دیکھ کر نہیں عقل اور قابلیت دیکھ کر ووٹ دیے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہینڈسم اور ہیرو ٹائپ افراد فلموں یا اشتہارات کے لیے موزوں ہوتے ہیں، قوموں کی قیادت کے لیے نہیں.. قیادت کے لیے کردار اور قابلیت کی ضرورت ہوتی ہے۔
آج قوم فیصلہ کر لے کہ وہ قیادت کے انتخاب کے لیے سب سے زیادہ اہمیت کردار کو دے گی تو اسی روز حالات پلٹا کھائیں گے اور بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے ۔ پاکستان کو اس وقت ایک ایسے مدبر اور جراتمند مند قائد کی ضرورت ہے جو قوم کو درست علاج کے ذریعے مہلک ترین بیماری یعنی مایوسی اور احساسِ کمتری سے چھٹکارا دلائے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس