پاکستان کے عوام اس وقت بموں کی زد میں ہیں پیٹرولیم بم، بجلی بم،ڈالر بم، ادویات کا بم اور اس بمباری نے، جو تاحال جاری ہے اور رکنے کا نام نہیں لے رہی، نہ جانے کتنا نقصان پہنچایا ہے اور آگے کتنا نقصان ہونے والا ہے اس کا شاید وہ لوگ اندازہ کرہی نہیں سکتے جو پچھلے 16ماہ حکومت کرنے کے بعد آرام کی غرض سے لندن چلے گئے ہیں۔ مسٹر اسپیڈ سابق وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اس عرصے میں جو گل کھلائے ہیں اس کے بعد تو ان کے قائد میاں نواز شریف خود بھی پریشان ہیں کہ ایسے میں پاکستان واپس جاکر کیا کروں کہیں استقبال کرنے والے اپنے ہاتھوں میں بجلی کے بل لے کر نہ آ جائیں۔
ایک ایسے ماحول میں کراچی سے خیبر تک لوگ سراپا احتجاج، یوں کم ازکم مسلم لیگ (ن) کوتو نومبر میں الیکشن سوٹ نہیں کرتا ورنہ تو وہ وقت پر اسمبلیاں تحلیل کرتے60روز میں الیکشن کی طرف جاتے۔ مگر اس تمام تر صورتحال کی ذمہ دار صرف مسلم لیگ(ن) نہیں سابقہ حکمراں اتحاد پی ڈی ایم۔ پی پی پی ہے جن سے غالبا بنیادی غلطی سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اور کسی اور کی لڑائی کا حصہ بننا تھا ورنہ تو مارچ 2022 سے پہلے خان صاحب مشکل میں تھے جبکہ آج وہ اٹک جیل میں رہتے ہوئے بھی مقبولیت کی بلندی پرہیں اور مطمئن بھی ورنہ اگر آج اقتدار میں ہوتے تو مشکل میں ہوتے۔
لوگوں میں اس وقت غصہ کتنا ہے اس کیلئے ہمیں دوستمبر کو جماعت اسلامی کی اپیل پر پہیہ جام ہڑتال کا انتظار رہے گا۔ جماعت سے نظریاتی اور سیاسی اختلاف اپنی جگہ مگر انہیں حافظ نعیم الرحمان کی صورت میں ایک موثر آوازضرور ملی ہے جو پچھلے چند سال میں خاصی توانا آواز ہے۔ انہیں عام انتخابات میں کتنا فائدہ ہوتا ہے اور اگر نہیں ہوتا تو کیوں نہیں اس پرپھر کبھی…تاہم کراچی کا سیاسی میدان اس وقت خالی پڑا ہے، جس دیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا۔
پی ڈی ایم پہلے دن سے ایک غیر فطری اتحاد تھا اور دسمبر2020میں اس میں پہلی بڑی تقسیم پی پی پی۔ پی ایم ایل(ن) کے درمیان اختلافات سے ہوئی اور فاصلے اب مزید بڑھتے نظر آرہے ہیں۔ 2020 کی مسلم لیگ کے رہنما طارق فضل چوہدری کے فارم ہاؤس پر جو ہوا اس سے عمران خان کی حکومت کو مزید دوسال مل گئے۔اس وقت کپتان کی پشت پر سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور isi چیف جنرل فیض حمید تھے۔ ٹرائیکا ٹوٹی توپی ڈی ایم میں دوبارہ جان پڑ گئی۔ خان صاحب اس نزاکت کو سمجھ ہی نہ سکے اور اکتوبر2021سے اپریل2022کے درمیان جو اختلاف جنرل فیض کے تبادلے سے شروع ہوا تو خان صاحب فیض کے ہوگئے اور جنرل باجوہ نے پی ڈی ایم کوگود لے لیا۔ لندن والیصاحب کچھ اور ہی سوچ رہے تھے مگر جلد اقتدار حاصل کرنے کی غرض سے عدم اعتماد لانے کا فیصلہ ہوا تو دوسری طرف عمران کو یقین تھا ان کے ا قتدار کو کوئی خطرہ نہیں۔مارچ2022کو عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی تو تحریک انصاف اور ان کے اتحادیوں باپ، ایم کیو ایم اور مسلم لیگ(ق) کے ایک اجلاس میں اور الگ الگ ملاقاتوں میں بھی عمران نے انہیں یقین دلایا کہ یہ تحریک کامیاب نہیں ہوگی کیونکہ خود جنرل باجوہ ان کو یہ یقین دلا رہے تھے۔ ہمارے حکمرانوں کا اصل مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ جب وہ سیاستدان سے حکمران بنتے ہیں تو زمینی حقائق انٹیلی جنس کی عینک سے دیکھتے ہیں اور جب تک انہیں پتا چلتا ہے اصل حقائق کا، پیروں کے نیچے سے زمین کھسک گئی ہوتی ہے اس کے بعد صرف آپ اپنے آپ کو بچانے کیلئے ہاتھ پیر مارسکتے ہیں۔ باجوہ صاحب وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے تھے فیض صاحب ایک ہی طرف تھے۔ یہی غلطی پی ڈی ایم کررہی تھی وہ ان اتحادیوں کو گلے لگا رہے تھے جو2018سے 2022تک تحریک انصاف حکومت کا حصہ تھے اور ایک طرح سے سہولت کار تھے۔ دوسری طرف مسلم لیگ(ن) اپنی گیم کھیل رہی تھی اور پی پی پی اپنی۔ بہرحال دونوں کے بعض مشترکہ مفادات بھی تھے اور پھر دونوں سے ایک بڑی بنیادی غلطی ہوئی اور وہ تھی عمران کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لاکر فورا انتخابات کی طرف نہ جانا کیونکہ اس وقت عمران حکومت کی مقبولیت میں خاطر خواہ کمی ہوئی تھی اور وہ مسلسل ضمنی اور بلدیاتی الیکشن ہاررہے تھے بشمول کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات۔ دوسری بڑی غلطی مسٹر اسپیڈ کو لانے کی اور یوں انہوں نے شہباز شریف کوبھی ضائع کردیا۔
10اپریل2022سیاگست2023تک عمران کی تمام تحریکیں ناکام ہوئیں مگر اس کی مقبولیت آسمان کی بلندیوں پرپہنچ گئی اور عدم اعتماد کی تبدیلی خود پی ڈی ایم کے گلے پڑ گئی، پی پی پی کے سامنے تو سندھ میں آج بھی کوئی بڑا انتخابی چیلنج نہیں ریاستی اداروں اور پی ٹی آئی کے اختلافات کا ایک فائدہ تو انہیں یہ ہوا کہ کراچی میں اکثریت نہ ہونے کے باوجود ان کا مئیر بن گیا تو دوسری طرف ایم کیو ایم کی تقسیم در تقسیم نے شہری سندھ میں بھی ان کی نشستوں میں اضافے کا امکان پیدا کردیا۔اسی لیے وہ الیکشن90روز میں چاہتے ہیں کہ کہیں کھیل پلٹ نہ جائے لہذا آنے والے وقت میں مسلم لیگ اور پی پی پی کے درمیان اختلافات شدت اختیار کرسکتے ہیں۔
پی ڈی ایم کیلئے ان16ماہ کا بوجھ اٹھانا مشکل ہوگیا ہے کیونکہ مہنگائی گلے پڑ گئی ہے جب لوگ بغاوت پر اتر آئیں، بجلی کیبل جلانا شروع کردیں، بجلی کاٹنے کیلئے آنے والے ملازمین پر تشدد ہونے لگے تو یہ غصہ کی ابتدا ہے انتہا نہ ہوتو بہتر ہے۔ میں معذرت کے ساتھ تاجروں کے ساتھ تو نہیں کیونکہ مجموعی طور پر یہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے مگر عام آدمی اب بجلی کے بل نہیں دے سکتا۔ اسحاق ڈار صاحب جو ڈالر150سوپر لارہے تھے وہ چند دن میں350پر پہنچنے والا ہے۔ مقابلہ اس کا پیٹرول سے ہے۔ اس پس منظرمیں میاں صاحب کیا کریں گے آ کر، بھائی نے کچھ چھوڑا ہی نہیں ان کیلئے۔ عمران پر مقدمہ چلائیں، نواز پر چلالیں ،زرداری پر چلائیں مگر ایک مقدمہ ان پر بھی بنتا ہے جو پچھلے پانچ سال میں اپنی میعاد میں توسیع کی خاطر کبھی عمران کو لائے کبھی گھر بھیجا، کبھی نواز کو لائے پھر نااہل کروایا۔ ٹرائل تاریخ کو تو کرنا ہی ہے، بہتر ہے اعتماد کی بحالی کیلئے سچ لوگوں کے سامنے آنے دیں کون ہے اس ساری تباہی کا اصل ذمہ دار۔
آخر میں پچھلے کالم میں ایک بڑی غلطی پر معذرت پی پی پی کی بے لوث کارکن محترمہ شاہدہ جبیں سے۔ انتقال ان کا نہیں ان کے شوہر کا ہواتھا مگر میں ذکر ایک اور خاتون کارکن شمیم کا کرناچاہتا تھا شاہدہ آپا کو میں نے خود فون کرکے معذرت کی۔پی پی پی کے دوستوں نے اس پرمجھے بہت برا بھلا کہا، بغض کا بھی الزام لگایا کاش وہ کالم ہائبرڈ جمہوریت کی کرامات، سمجھ بھی لیتے یہ کالم تو فرخندہ بخاری کے نام تھا جنہیں پہلی بار کسی تمغے سے نوازا گیا۔ میری تو درخواست ہے کہ پی پی پی کی قیادت شاہی قلعہ، قیدوبند کی صعوبتیں جھیلنے اور پھانسی چڑھ جانے والوں کو تمغہ جمہوریت دے جو زندہ ہیں انہیں اسمبلیوں میں لے جائے جو دنیا سے رخصت ہوئے انہیں یاد رکھے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ