کیا آپ جانتے ہیں کہ بجلی کے بلوں میں عائد کئے گئے غیر منصفانہ ٹیکس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ آئین پاکستان کی دفعہ 3 اور 25 کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ پرائیویٹ اسکولز اور یونیورسٹیوں میں وصول کی جانے والی بھاری بھر کم فیسیں آئین پاکستان کی دفعہ 25اے اور 37 کی خلاف ورزی ہیں؟ بہت کم پاکستانیوں کو یہ علم ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا موجودہ آئین اپنے شہریوں کو بہت سے ایسے حقوق دیتا ہے جو ناروے،سویڈن اور ڈنمارک جیسی جمہوریتوں میں تو ہیں لیکن امریکا اوربرطانیہ جیسی سرمایہ دارانہ جمہوریتوں میں نہیں ہیں۔ آئین کی دفعہ 3 میں کہا گیا ہے کہ ریاست استحصال کی تمام اقسام کا خاتمہ کرے گی اور ہر کسی کو اس کی محنت کے مطابق معاوضہ دیا جائے گا۔ دفعہ 25 کے مطابق تمام شہری قانون کی نظر میں برابر ہیں اور قانونی تحفظ کے مساوی حق دار ہیں۔ دفعہ 25 میں ناصرف جنسی امتیاز سے انکار کیا گیا بلکہ عورتوں اور بچوں کے حقوق کا تحفظ کیا گیا۔ 25 اے کے مطابق ریاست کا فرض ہے کہ پانچ سال سے سولہ سال کی عمر کے ہر بچے کیلئے مفت تعلیم کا بندوبست کرے۔ دفعہ 37 کے مطابق ریاست نے پسماندہ طبقات کے تعلیمی اور معاشی حقوق کا تحفظ کرنا ہے اور کم سے کم وقت میں مفت سکینڈری تعلیم سب کو دلوانی ہے۔ اسی دفعہ میں یہ بھی قرار دیا گیا کہ ہر کسی کیلئے میرٹ پر اعلیٰ تعلیم کا حصول ممکن بنایا جائے گا اور سستا و فوری انصاف بھی مہیا کیا جائے گا۔ 14 اگست 1973ء کو یہ آئین نافذ ہوا۔ 2023ء میں اس آئین کے نفاذ کے پچاس سال پورے ہوگئے لیکن اس آئین میں پاکستانی شہریوں کو جو حقوق دیئے گئے وہ کدھر گئے؟ سب جانتے ہیں کہ پچاس سال میں سے طویل عرصہ تک فوجی ڈکٹیٹروں نے اس آئین کو معطل رکھا اور جب آئین بحال ہوا تو اقتدار کے بھوکے سیاستدان اس پر عمل کرنے کی بجائے آپس میں ایک دوسرے کو بھنبھوڑتے رہے۔ عدلیہ نے اس آئین کی پاسداری کرنا تھی لیکن اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی بڑی اکثریت فوجی ڈکٹیٹروں کی چمچہ گیری کرتی رہی اور مارشل لاؤں کو تحفظ دیتی رہی۔
1973ءکے آئین کی خلاف ورزی میں اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ یہ جج صاحبان، اعلیٰ فوجی افسران اور اعلیٰ سرکاری افسران جو مراعات حاصل کرتے ہیں وہ آئین کی دفعہ 25 کے خلاف ہیں۔ ان سب کو ملنے والی مراعات کا بوجھ بجلی اور گیس کے بلوں کے ذریعہ عام لوگوں پر ڈالا جاتا ہے۔ پاکستان کا طبقاتی نظام تعلیم آئین کی دفعہ 3 کے خلاف ہے۔ مہنگے انگریزی میڈیم اسکولوں میں عام پاکستانیوں کے بچے نہیں پڑھ سکتے۔ یہ اسکول جس اشرافیہ کو جنم دیتے ہیں وہ اشرافیہ ان عوام پر حکومت کرتی ہے جو سستے اردو میڈیم اسکولوں یا دینی مدارس میں پڑھتے ہیں۔ کوئی حکومت اس طبقاتی نظام تعلیم کو ختم نہیں کرتی کیونکہ انگریزی میڈیم اسکول اور پرائیویٹ یونیورسٹیاں ایک کاروبار بن چکے ہیں اور اس کاروبار سے وابستہ افراد پالیسی ساز اداروں میں بہت اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ یہ سب مفاداتی گروہ معاشی اصلاحات کے نام پر ایسی پالیسی بناتے ہیں جس کا مقصد صرف اور صرف امیر طبقے کو ملنے والی مراعات کا تحفظ ہوتا ہے۔ آئین پاکستان میں ایسے بہت سے حقوق موجود ہیں جو شہریوں کو مل جائیں تو ریاست مضبوط اور کچھ گروہ کمزور ہو جائیں گے لہٰذاآئین پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ مثلاً دفعہ 10 کے مطابق اگر کسی شہری کو گرفتار کیا جائے گا تو 24 گھنٹے کے اندر اندر اسےکسی عدالت میں پیش کیا جائےگا۔ اگر دفعہ 10 پر عملدرآمد ہونے لگے تو پھر ریاستی اداروں کو اپنے شہریوں کو اٹھا کر لاپتہ کرنے میں مشکل پیش آئے گی اس لئے دفعہ 10 پاکستان میں غیر موثر ہے۔ دفعہ 38 کے مطابق ریاست اپنے شہریوں کو خوراک، کپڑا، گھر، تعلیم اور طبی سہولیات فراہم کرے گی، آمدنی میں موجود تفریق کم کرے گی اور ربا (سود) کو ختم کرے گی۔ دفعہ 227 کےمطابق پاکستان میں نافذ تمام قوانین کو قرآن و سنت کے تابع بنایا جائے گا۔ وفاقی شرعی عدالت پاکستانی بینکوں کو سود سے پاک بینکنگ کو فروغ دینے کا حکم دے چکی ہے لیکن اس فیصلے پر بھی عمل درآمد نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ کے جج صاحبان کسی سیاستدان کو ذاتی پسند و ناپسند پر نااہل قرار دے دیتے ہیں، کسی کو رہا کرنے کا حکم دینے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے، لیکن آئین کی ان دفعات پر عملدرآمد میں دلچسپی نہیں لیتے جن کا براہ راست تعلق عام آدمی کے حقوق سے ہے۔
آئین کی دفعہ 5 کے تحت ریاست سے وفاداری ہر شہری کا فرض ہے اورآئین کی اطاعت ہر شہری پر لازمی ہے۔ جب اس آئین سے بغاوت کرنے والے فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کو ایک جج سزا دیتا ہے تو عمران خان کی حکومت اس جج کو پاگل قرار دے دیتی ہے اور پھر کچھ دیگر جج صاحبان اس ڈکٹیٹر کو ریلیف دے کر پروموشن حاصل کرلیتے ہیں۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ ایک آئین شکن ڈکٹیٹر کو سزا دینے پر عمران خان اور جنرل قمر جاوید باجوہ میں اختلاف نہیںہوتا۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی بھی آئین شکن ڈکٹیٹر کو سزا دلوانے پر اصرار نہیں کرتیںبلکہ ڈکٹیٹر کو سزاسے بچانے والے جنرل قمر جاوید باجوہ کی خوشامد میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ ان سب کا آپس میں اختلاف اپنے ذاتی مفادات پر ہو جاتا ہے۔ ان میں سے کسی کا مسئلہ آئین پاکستان نہیں ہے۔ آج کل یہ بحث چل رہی ہے کہ آئندہ عام انتخابات کب کرائے جائیں؟ اس معاملے پر آئین کی دفعہ 224 بڑی واضح ہے۔ قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد 90 دن کے اندر انتخابات کا انعقاد آئینی تقاضا ہے۔ الیکشن کمیشن نئی حلقہ بندیوں کے نام پر انتخابات کا التوا چاہتا ہے لیکن اس التوا کے پیچھے جو اصل سوچ ہے وہ آئین پاکستان کوآہستہ آہستہ غیر موثر کرنا چاہتی ہے۔پہلے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابات 90 دن میں نہیں ہوئے، اگر عام انتخابات بھی 90 دن میں نہیں ہوتے تو 1973ء کے آئین کے دشمنوں کے پاس یہ دلیل آجائے گی کہ یہ آئین اپنا دفاع نہیں کرسکتا لہٰذا یہ آئین بدل دیا جائے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی والے 2022ءمیں ہمیں کہتے تھے کہ عمران خان پاکستان میں صدارتی نظام لانا چاہتا ہے اس لئے اسے ہٹانا ضروری ہے۔ آپ نے اسے ہٹا دیا۔ جیل میں پہنچا دیا لیکن اب اگر اس آئین پر عملدرآمد نہیں ہوتا تو ذمہ دار کون ہے؟ بجلی کے بلوں پر احتجاج کرنے والے عام پاکستانی یاد رکھیں کہ 1973ء کے آئین میں انہیں سستی تعلیم، مفت طبی سہولیات، رہائش اور خوراک سمیت بہت سے حقوق دیئے گئے ہیں۔ انہیں صرف بجلی سستی نہیں کرانی بلکہ اس مراعات یافتہ طبقے کی غلامی سے نجات حاصل کرنی ہے جو آئین پاکستان کوآہستہ آہستہ غیر موثر بنا رہا ہے۔ یہ دھوکہ باز طبقہ اپنے گروہی مفادات کو قومی مفادات کا نام دیتا ہے اس آئین دشمن طبقے کی شکست ہی پاکستان کی فتح ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ