شاہ، جنہوں نے اسی معاملے پر پھر بنچ سے کہا کہ وہ ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 253 جو بین الاقوامی معاہدوں، معاہدوں اور کنونشنز سے متعلق ہے میں ایک شرط شامل کی گئی، کہ ریاست جموں و کشمیر کے اختیار کو متاثر کرنے والا کوئی فیصلہ ریاست کی حکومت کی رضامندی کے بغیر حکومت ہند نہیں کرسکتی ہے۔ شاہ نے مزید کہا کہ جموں و کشمیر کی صورت حال کا ایک اندرونی اور ایک بیرونی جہت ہے اور دونوں ایک ساتھ ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 306A کے مسودہ میں شامل ہیں جو کہ حتمی فیصلہ تک زیر التوا ہے۔شاہ نے اپنی دلیل کا اختتام بھارت کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی 2005 کی سری نگر کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کیا، ”مسئلہ کشمیر کو انسانیت اور جمہوریت کے دائرے میں حل کیا جائے گا۔” شاہ نے امید ظاہر کی کہ عدالت اس بیان کی روشنی میں اپنا فیصلہ صادر کریگی۔ شاہ کی آٹھ گھنٹے طویل بحث کے بعد ڈاکٹر راجیو دھون نے مختصر بحث میں عدالت کو بتایا کہ بھارت ایک ملک کے بجائے ایک براعظم ہے اور اس کے تنوع کے لیے خود مختاری کے انتظامات کی ضرورت ہے جیسا کہ آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت جموں و کشمیر میں موجود تھا۔دھون نے دلیل دی کہ آئینی اخلاقیات تجویز کرتی ہے کہ اس طرح کے انتظامات کو محفوظ رکھا جانا چاہیے۔انہوں نے نشاندہی کہ بحث کے دوران چیف جسٹس نے آرٹیکل 249 اور 252 کا حوالہ دیا۔انہوں نے ان آرٹیکلز کے حوالے سے بنچ کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کو ”بہت اہم” قرار دیا اور کہا کہ اس نے درخواست گزاروں کو ”بنیادی ڈھانچہ” کے خطوط پر بحث کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بینچ نے انضمام کے معاہدوں” کی حیثیت سے کئی سوالات اٹھائے ہیں۔ اس پر دھون نے کہا کہ دستاویز الحاق کی رو سے بیرونی خودمختاری ختم ہو جاتی ہے، لیکن اندرونی خودمختاری ختم نہیں ہوتی ہے۔ دھون، نے نشاندہی کی کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان کے ساتھ جوں کے توں یعنی اسٹینڈ اسٹل کے معاہدے پر دستخط نہیں کیے تھے۔اس طرح کا معاہدہ مہاراجہ نے پاکستان کے ساتھ کیا تھا۔دھون نے اپنی دلیل کو مضبوط کرنے کے لیے پریم ناتھ عدالتی فیصلہ کا حوالہ دیا کہ آرٹیکل 370 اسٹینڈ اسٹل یا انضمام کے معاہدے کا آئینی متبادل ہے۔انہوں نے کہا کہ دستاویز الحاق کے ذریعے مہاراجہ نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ جموںوکشمیر ہندوستان کے تسلط کا حصہ بن چکا ہے۔لیکن مہاراجہ نے الحاق کے ذریعے اپنی خودمختاری کو منتقل نہیں کیا۔دھون نے نشاندہی کی کہ خودمختاری کی منتقلی کا عمل جزوی طور پر سیاسی وجوہات اور جزوی طور پر آرٹیکل 370 کی وجہ سے شروع ہوا۔انہوں نے آرٹیکل 3 کے مندرجات کا حوالہ دیکر کہا کہ اس کی رو سے کسی بھی ریاست کے نام یا حدود کو تبدیل کرنے والا کوئی بل ریاستی مقننہ کی رضامندی کے بغیر پیش نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ 1954 (صدارتی حکم CO 48) نے آرٹیکل 3 میں ایک اور شرط شامل کی، جس میں کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کے رقبے کو بڑھانے یا کم کرنے یا ریاست کے نام یا حدود کو تبدیل کرنے کا کوئی بل جموں وکشمیر مقننہ کی رضامندی کے بغیر ہندوستانی پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ دھون نے سوال کیا کہ ریاستی مقننہ کی مشاورتی طاقت کو پارلیمنٹ کے ساتھ کیسے بدل دیا گیا۔دھون نے ہندوستانی آئین کے آٹھویں شیڈول کے ساتھ پڑھے گئے آرٹیکل 343 کا بھی حوالہ دیا جو کشمیری کو ایک زبان کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ ایک ایگزیکٹو ایکٹ کے ذریعے کشمیری کو بطور زبان نہیں چھینا جا سکتا۔انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 356 کے تحت صدر کو جو اختیارات دیئے گئے ہیں وہ مکمل نوعیت کے نہیں ہیں۔ اختیارات کا اس حد تک استعمال اور غلط استعمال کیا گیا ہے کہ ان کے استعمال میں کچھ نظم و ضبط لازمی ہے۔دھون نے متنبہ کیا کہ صدارتی راج کی آڑ میں جموں و کشمیر کے ساتھ جو ہوا وہ کسی اور ریاست کے ساتھ ہوسکتا ہے اگر آرٹیکل 356 کے تحت اختیارات پر قدغن نہیں لگائی گئیں۔انہوں نے دلیل دی کہ آرٹیکل 3 اور 4 کے تحت نہ تو صدر اور نہ ہی پارلیمنٹ ریاستی مقننہ کا متبادل ہو سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے دھون سے پوچھا کہ کیا پارلیمنٹ آرٹیکل 246(2) کے تحت صدر راج کے دوران ریاست کیلئے قانون بنا سکتی ہے، تو دھون نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ ریاستی فہرست کے تحت قانون بنا سکتی ہے لیکن جب وہ آرٹیکل 3 کے تحت کوئی قانون پاس کرتی ہے، تو اسے مذکورہ شرائط کی پابندی کرنی ہوگی۔انہوں نے نشاندہی کی کہ جموں و کشمیر میں ایک قانون ساز کونسل بھی تھی۔ جسے آئینی ترمیم کے بغیر ختم نہیں کیا جا سکتا تھا۔ دھون نے کہا کہ آرٹیکل 244A خود مختار ریاستوں کے قیام کا انتظام کرتا ہے۔ یہ ریاستوں کی خود مختاری کو تقویت دیتا ہے جو آرٹیکل 370 میں جموں و کشمیر کو دی گئی خود مختاری کے مطابق ہے۔انہوں نے کہا کہ آئین کو اخلاقیات کے ساتھ پڑھا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت نے کشمیری عوام کے ساتھ وعدے کئے ہیں کہ ان کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق ہوگا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ کئی مواقع پر بھارتی لیڈران نے عزم کا اظہار کیا کہ وہ رائے شماری کے ذریعے لوگوں کی مرضی جاننے کے لیے پابند ہیں بشرطیکہ پرامن اور معمول کے حالات بحال ہوں اور رائے شماری کی غیر جانبداری کی ضمانت دی جا سکے۔دھون نے کہا کہ ہم نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ آئین ساز اسمبلی کے ذریعہ لوگوں کی مرضی ریاست کے آئین کے ساتھ ساتھ یونین کے دائرہ اختیار کا تعین کرے گی۔انہوں نے کہا کہ کہا کہ یہ وہی عہد ہے جو آرٹیکل 370 کی روح ہے۔ دھون کے بعد دشانت دوئے نے دلیل دی کہ 2019 کے آئینی احکامات تضادات کا مجموعہ اورآئین ہند کے ساتھ دھوکہ دہی ہیں۔ انہوں نے عدالت کو کہا کہ انصاف صرف ہونا ہی نہیں چاہیے، ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے۔آرٹیکل 370 کے عارضی ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے دوئے نے کہا کہ یہ ہندوستان کیلئے کبھی بھی عارضی نہیں تھا۔ یہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے لیے اس حد تک عارضی تھا کہ وہ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے ہاتھوں اپنی قسمت کا فیصلہ کر سکتے تھے۔انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کے آخری ڈوگرہ مہاراجہ مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان کے اس وقت کے گورنر جنرل لارڈ لوئس مانٹ بیٹن کے ساتھ مشروط طور پر ہندوستان کے تسلط میں الحاق کے لیے جو معاہدہ کیا تھا اس کی تشریح آرٹیکل 370 کی روشنی میں کی جانی چاہیے،انہوں نے کہا کہ معاہدہ سازی کی طاقت کو آئین کے زیر غور طریقے سے استعمال کرنا ہوگا اور اس کی طرف سے عائد کردہ حدود کے تابع ہونا پڑے گا۔ آیا یہ معاہدہ عام قانون سازی کے ذریعے نافذ کیا جا سکتا ہے یا آئینی ترمیم کے ذریعے یہ قدرتی طور پر خود آئین کی دفعات پر منحصر ہوگا۔دوئے نے کہا کہ آرٹیکل 370 کی تشریح آرٹیکل 370 میں ہی موجود ہے۔آرٹیکل 370 میں ترمیم کے لیے صرف آئینی اختیارات کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ وکلا کی بحث فی الحال جاری ہے۔گو کہ کشمیر کے معاملے پر چاہے سپریم کورٹ ہو یا قومی انسانی حقوق کمیشن ، بھارت کے کسی بھی موخر ادارے کا ریکارڈ کچھ زیادہ اچھا نہیں رہا ہے، مگر چونکہ اس مقدمہ کے بھارت کے عمومی وفاقی ڈھانچہ پر بھی دور رس اثرات مرتب ہونگے، اسلئے شاید سپریم کورٹ کو اسکو صرف کشمیر کی عینک سے دیکھنے کے بجائے وفاقی ڈھانچہ اور دیگر ریاستوں پر اسکے اثرات کو بھی دیکھنا پڑے گا۔ اس تناظر میں امید ہے کہ وہ ایک معروضی نتیجے پر پہنچ کر کشمیری عوام کی کچھ دار رسی کا انتظام کر پائیگا۔خیر اس وقت تمام نگاہیں بھارتی سپریم کورٹ کی طرف ٹکی ہوئی ہیں۔ کیا سپریم کورٹ واقعی کوئی تاریخ رقم کریگا؟ ایک بڑا سوال ہے، جس کا جواب وقت ہی دیگا۔
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز