کمال تو یہ ہے کہ 8محکمے ابھی وزیراعظم کے پاس ہیں، پھر بھی 25وزیر ہیں۔ ان کا کام صرف اور صرف الیکشن کروانا ہے اور بڑی چھان بین کے بعدیہی نگ نکلے ہیں۔ جس وقت سارے وزیر حلف لے رہے تھے اس وقت 19گرجا گھروں، مسیحیوں کے 86مکانوں کو جلایا جا رہا تھا اور خیرپور میں پیر صاحب، فاطمہ کے ننھے جسم کو اپنے ہاتھ سے قبر میں اتار رہے تھے۔ اسلام آباد میں عندلیب کی پٹائی کی کہانی چل رہی تھی اور یہیں نوکر شاہی کے پتلے ادھر سے ادھر کئے جا رہے تھے۔ نگران کو بھی پروٹوکول مل رہا ہے، مگر ابھی ٹھیک سے پریس کانفرنس کا فن نہیں آیا ،بولتے ہوئے، زبان لڑکھڑا رہی تھی۔
زمانہ تھا ضیا الحق کا، ہم لوگ یعنی عبداللہ ملک سے منو بھائی تک فیض صاحب کے گھر بیٹھے زور زور سے بحث کر رہے تھے۔ ان سب لغویات کی مذمت کررہے تھے جو اسلام کے نام پر روا رکھی جا رہی تھیں ۔ جب بحث میں بہت گرما گرمی پیدا ہوگئی، فیض صاحب کھڑے ہوئے ارے بھئی دیکھتے رہو، پاکستان ایسے ہی چلتا رہے گا۔ ایک دم خاموشی چھا گئی۔ مجھے ہر بات پہ سوچنے کی بری عادت ہے۔ یاد آیا کہ اس ملک میں ہوتا کیا رہا ہے۔ عدلیہ کو ہی لے لیں، جسٹس رشید کی رپورٹ نے ملک میں خرابی کی بنیاد رکھی اور پھر آنے والے تمام فیصلوں نے ملک کو آگے نہیں بڑھایاحتی کہ بھٹو صاحب کی پھانسی سے لے کر کارگل تک، ناسور ہی ناسور ہیں۔ غالب نے کہا تھا شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے۔ ستمبر میں جانے سے پہلے، چیف جسٹس نے غالب کے مصرعے کی تشریح کردی ہے۔
یہ بھی سچ ہے ہماری فوج نے کسی طور آزاد کشمیر حاصل کیا۔ انڈیا کو اسی دن سے پتنگے لگے ہوئے ہیں۔ وہ دن اور آج کا دن ہم دونوں ملک اچھے دشمن بھی نہیں ثابت ہوئے۔ 65کی جنگ، امریکہ نے بند کروائی اور 71کی جنگ نے بنگال کو ایک نئی مملکت بنا دیا۔ ہرچند سیلابوں اور زلزلوں میں فوج نے عام خلقت کیلئے بے پناہ کام کیا۔ مگر پھر 1961ہی سے جو حکومت کا ذائقہ چکھنے لگی تھی، یہ سلسلہ حکومتیہ، مشرف کے زمانے تک جاری رہا۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔جب افغانستان میں روسی فوجوں نے قبضہ کیا تو ایک جلسے میں فیض صاحب سے ہاتھ ملاتے ہوئے مجید نظامی نے کہا فیض صاحب کابل تک روس آگیا ہے، پاکستان میں وہ ٹینک آئے تو کیا آپ ان پر بیٹھ کر آئیں گے۔ یہ تو نہیں ہوا مگر ہم نے اس میدان میں اپنی فوج جھونک دی۔ ہم نے اپنے ہزاروں فوجی اور عوام کو مروا دیا۔ امریکہ ڈالر دیتا رہا، ہم میں سے کچھ لوگ کچھ بچاتے رہے۔ تیس چالیس ہزار افغان پناہ گزینوں نے خیموں میں رہنا پسند نہ کیا۔ پاکستان کی ٹرانسپورٹ پر قابض ہوگئے۔ اپنے ساتھ منشیات لائے۔ ہر روز کسی نہ کسی مسافر کے پیٹ سے سینکڑوں کپسول نکلتے ہیں، چاہے عمرہ کرنے جا رہا ہو۔
چلئے فوجی حکومت کے ساتھ ساتھ عوامی حکومت کے زمانے بھی وقتاً فوقتاً آتے رہے۔ کبھی بی بی بے نظیر، کبھی نواز شریف۔ بی بی کو حکومت پیرنی کی طرح نہیں دی گئی۔ دونوں دفعہ اہم محکمے اپنے پاس رکھے۔ زرداری صاحب نے کچھ کھیل کھیلے اور کچھ ان کے ذمے لگائے گئے۔ یکے بعد دیگرے بی بی اور نواز شریف تخت پہ بٹھائے جاتے رہے۔ عدل کی زنجیر، فوج کے ہاتھ ہی میں رہی۔ وہ زنجیر اب ہلانے کیلئے ایک ہرکارہ منتخب کیا گیا۔ جو کرکٹ کھیلتا تھا اس نے وعدہ بھی کیا کہ میں کسی اچھے برے کا ذمہ دار نہیں ہوں گا۔ میں تو آرام سے ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر حلوہ کھاوں گا۔ آپ جو چاہیں کریں۔ یہی ہوتا رہا۔
عوامی حکومت یعنی نام کی بھٹو صاحب کی حکومت نے کوثر نیازی جیسوں سے ڈر کے، آٹھویں ترمیم کی طرح بہت سی مذہبی اور معاشرتی پابندیاں نافذ کیں۔ مذہبی فرقہ بندی کو ہوا دی اور عمران کی طرح تکبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے پارٹی بنانے والوں کو ذلیل کیا اور خود پھانسی چڑھ گئے۔ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر انہوں نے پاکستان کو شکاگو بنانے کیلئے اونچی اونچی بلڈنگیں بنانے والوں کو اتنی آزادی دی کہ ملتان میں آم کے باغ بھی اجاڑ دیئے۔ اونچی بلڈنگوں میں پورا پورا فلور ریٹائر ہونے والے افسروں اور فوجیوں نے پہلے سے بک کروا لئے۔ ساتھ ہی پراپرٹی ڈیلروں کی چاندی ہونے لگی۔ غیر ممالک میں رہنے والوں کی زمینیں اونے پونے بیچ کر ان کو شور مچانے پہ رکھ دیا اور خود ممبر پارلیمنٹ بن گئے۔
ان 76برسوں میں کچھ کاروبار بہت چمکے جیسے لوگوں کو اغوا کرنا، غیر سیاسی بولنے والوں یعنی سچ بولنے والوں کو خاص کر صحافیوں کو مارا گیا، لاپتہ کیا گیا، لکھنے سے منع کیا گیا، بہت سے صحافی آج کے یوٹیوبر بن کے غیرممالک میں جس کو چاہتے بلیک میل کرتے ہیں۔ ہزارہ کمیونٹی اور بلوچوں کو اتنا مارا گیا کہ قبرستان بن گئے۔ میڈیا میں اس وقت تباہی شروع ہوئی جب مشرف نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگاکے بے شمار چینلوں کا ریوڑ کھلا چھوڑ دیا۔ سندھ میں الطاف حسین جیسوں نے کراچی اور سندھ کو لہولہان کرنے کے بعد، نفرت کو ایسا جنم دیا کہ کہنے کو ہم پاکستانی تھے مگر صوبوں اور فرقوں میں بٹے ہوئے۔ اس کے بعد قتل عام کا میلہ، آج تک جاری ہے۔
کچھ سال تک زراعت پہ ہم فخر کرتے تھے۔ پھر کپاس کی جگہ گنے کے کھیت اور چینی کی فیکٹریاں، چاول اور گندم امپورٹ کرنے کے زمانے اور اب کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر بے چارہ کسان سر پکڑے بیٹھا ہے۔ دالیں تک امپورٹ ہو رہی ہیں۔
تعلیم کے شعبے میں کم سے کم بجٹ اول دن سے رکھا گیا۔ صحت کے نام پر دیواروں پر ہر جگہ مردانہ کمزوری دور کرنے کے مراکز، حکیموں کا کام تو پنساریوں نے بھی لے لیا۔ ساتھ ہی رنگ گورا کرنے کیلئے بیوٹی پارلر بننے لگے۔ آدھی سے زیادہ آبادی ناخواندہ رہی۔
اب آخر میں ریلوے کا سیاپا، ہم نے 76برس میں انگریزوں کی بچھائی ریلوے لائن میں سے آدھی تو اکھیڑ کر سریا بازار میں بیچ دی۔ آبادی کو کم کرنے کیلئے، ٹرینوں کے اتنے حادثات کئے اور دشمنوں کے نام لگا دیئے۔ اور بوڑھوں کو ہمیں یہ کہنے کو چھوڑ دیا، ہمارے زمانے تو دو روپے کلو گوشت ملتا تھا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ