وطنی جثہ میں جھوٹ کینسر کی طرح سرایت کر چکا ہے ۔ پورا معاشرہ دروغ گوئی میں گوڈے گوڈے ملوث ، مملکت ِخداداد میں شاید ہی کوئی ذِی نفس ،جو اس لعنت سے مبرا ہو ۔ ریاست کے تمام اعضاو اجزاخشوع و خضوع کیساتھ جھوٹ کو اپنا طرہِ امتیاز بنا چکے ہیں ۔ جہاں حکومت کیلئے ہر شعبے میں جھوٹ بولے بغیر سانس لینا دشوار ہو ، جہاں عدالتیں جھوٹ کا سہارا لے کر انصاف دیں، قومی ادارے کو اپنے آپکو انصاف دِلوانے کیلئے جھوٹ پر تکیہ کرنا پڑے، استحکامِ پاکستان کا دارومدار جھوٹ اور چالاکی کا مرہون منت ہو، ایسی مملکت کا جاں بلب ہونا بنتا ہے۔جاں کی امان پاؤں، ہمارے ہاں اخلاقی گراوٹ اور پستی کی آخری سطح کہ ریاست بزور طاقت جھوٹ منوائے اور پھیلائے ۔ جب حکومت ( بلاتفریق تمام سیاسی جماعتیں) اور دو بڑے ادارے جھوٹ کو شعار بنا لیں یاجھوٹ کے گرویدہ بن جائیں،سمجھیں مملکت کی طبعی عمر پوری ہونے کو ہے ۔لمحہ فکریہ ، سیاستدان ، ججز ، جرنیل رزقِ حلال کیلئے جھوٹ کی بیساکھی پکڑی ہیں ۔ سیاستدانوں میں عمران خان کو کریڈٹ کہ اس فن کو فنونِ لطیفہ کا درجہ دے رکھا ہے ۔وطنِ عزیز میں مبنی بر جھوٹ گھمسان کا رن پڑ چکا ہے ۔ اصول جنگ ہر ہتھکنڈہ جائز ، جھوٹ بطور جنگی ہتھیارموثر استعمال میں آچکاہے ۔
اسٹیبلشمنٹ بمقابلہ عمران،جنگی جنون کی کیفیت طاری۔ عمران حکومت کے آخری دو ماہ ، موصوف کوجیسے ہی بھنک پڑی کہ راندہ درگاہ ہونے کو، وہ دن اور آج کا دن ، جھوٹ کی رائی کو کوہِ ہمالیہ بنانے میں تن من دھن لگا دیا۔ ایسے ایسے جھوٹ تراشے کہ سچ بے وقعت نظر آیا۔ دسمبر 2021 میں عمران خان کی زمیں بوس مقبولیت کو جھوٹ نے ایسا تڑکہ لگایا کہ مقبولیت آسمان کو چھونے لگی ۔ مقبولیت پھلتے پھولتے دیکھی تو مزید بڑھانے کی تمنا میں آج جھوٹ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بناچکے ۔
10 اپریل 2022، عمران خان سبکدوش ہوئے تواگلے دن میرے بیٹے حسان خان نے مجھ سے سوال کیا کہ عمران خان کی سیاست کا مستقبل ؟، میرا جواب ،اگرچہ تمہارا لیڈر پہلا رائونڈ جیت چکا کہ اپنے بد ترین دورِ حکومت سے توجہ ہٹانے میں کامیاب اور ایک جھوٹے بیانیہ سائفرپر بحث ہو رہی ہے کہ مراسلہ جھوٹ ہے یا سچ ۔ البتہ اس میں ایک سقم ہے ، الیکشن تو دور کی بات موصوف کی جان بھی بچ گئی تو سمجھیں لاکھوں پائے ، 6 ماہ بعد اگر عمران خان بچ گئے تو اسٹیبلشمنٹ کا وجودمتزلزل رہے گا۔
عمران کو زیر زبر کرنے والی سیاسی جماعتیں حکومت میں آنے کے بعد اپنی سیاست اپنے ہاتھوں دفنا چکیں ، دوسری طرف جنرل باجوہ کی مجرمانہ سوچ کہ عمران خان کا وجود وقتی طور پر برقرار رکھ کر اتحادی حکومت سے توسیع ِ مدتِ ملازمت اِینٹھی جائے، عمران کے نصیب میں بلا مقابلہ مقبولیت آ گئی ۔ اس مقبولیت نے عمران کی وقتی تباہ حال سیاسی زندگی کو نئی لیز دی ۔ بدقسمتی سے ایسی LEASE OF LIFE کوجان لیوا بننا تھی، بالآخر آج سیاست کیساتھ موصوف کو بھی ہڑپ کرنے کو ہے ۔
حالات کا جبر، نئی عسکری قیادت کو چارو ناچار جنرل باجوہ صاحب کے گناہ آلود پروجیکٹ کی صفائی ستھرائی کیلئے گناہ آلود راستہ ہی اختیار کرنا پڑا۔ جھوٹ کے سہارے آگے بڑھنا ہے۔ سانحہ 9 مئی پر جنرل عاصم منیر کیلئیشر سے خیر برآمد، اسٹیبلشمنٹ کو ممنوعہ اسلحہ کے استعمال کا لائسنس مل گیا ۔ عمران کو کیفرِ کردار پر پہنچانے کیلئے ہر حربہ استعمال میں لانا، جائز قرار پایا ۔
عمران خان کی نئی نویلی عوامی پذیرائی، عدالت اور قانون نافذ کرنے والوں کو متاثر نہ رکھے ، ناممکن ہے ۔ بدھ کی سپریم کورٹ کارروائی سامنے، عدالت نے توشہ خانہ کیس میں سیشن کورٹ کے فیصلے میں مِین میخ نکالنے کے بعد کیس کے میرٹ پر بھی حتمی رائے دے ڈالی اور ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ کو الٹی میٹم بھی کہ کل ( جمعرات ) تک فیصلہ سنائے۔ کل ہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کا2 بجے سے رات 9 بجے تک انتظار کریں گے ( ماتحت عدالتوں کی عزت افزائی کا انوکھا طریقہ ) ۔
جملہ معترضہ ، عمران خان نے قسم کھا رکھی ہے کہ اپنے خلاف کیسز میرٹ پر نہیں چلنے دینے ۔ آغاز ڈاکٹر شیر افگن نیازی( 2007)سے پارٹی فنڈنگ کیس اکبر بابر( 2014 )سے لیکر آج تک ہر مقام پر ہر کیس میں عدالتی دائرہ کار ، MAINTAINABILITY
TIME BARRED کی آڑ میں میرٹ سے راہِ فرار اختیار رکھی ۔اس عمل میں جھوٹ پر جھوٹ کا ایک لامتناہی سلسلہ شعار اوراطوار بتایا ۔
یہ سچ ہے کہ سانحہ 9 مئی کا اکلوتا ذمہ دار عمران خان ہے ۔ بد قسمتی کہ سانحہ 9 مئی پر مطلوبہ نتائج حاصل کرنے اور اصل مجرم کو کیفرِ کردار تک پہنچانیکیلئے بغیر جھوٹ کے سہارے مطلوبہ نتائج نہیں ملنے ۔ عمران خان کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کیلئے COLLATERAL DAMAGE بھی ہو کر رہنا ہے،کئی نا حق اور کم قصور واروں کو تہہ تیغ کر کے اصل مجرم کو گھیرنا ہے ۔ پہلی خلیجی جنگ میں امریکہ جب عراق پر حملہ آور ہوا تو ہزاروں عراقی بچے دوائیوں اور غذائی قِلت سے مر گئے ۔اس پر امریکی وزیرِ خارجہ میڈلین البرائٹ کی شقی القلبی سے بھرافقرہ تاریخ کے صفحوں میں محفوظ کہ جنگوں میںایسا “COLLATERAL DAMAGE” برداشت کرنا پڑتاہے ۔ دونوں خلیجی جنگیں ، امریکہ نے جھوٹ کاسہارا لیکر لڑیں ۔ اگرچہ عراق پر قیامت گزری اس دوران جو “COLLATERAL DAMAGE ” ہو ااسکا حساب کتاب نہ ہو سکا کہ ایسے نقصان کی اہمیت نہ رہی۔ عمران کو انجام تک پہنچانے کیلئے بحیثیت قوم “COLLATERAL DAMAGE” کیلئے ہمیں ہمہ وقت تیار رہنا ہوگا۔
میرا بیٹا حسان خان بھی COLLATERAL DAMAGE کی زد میں ہے ۔ ملٹری کورٹس کیلئے نامزد ہے ۔ جتنے الزامات بنائے گئے، سب جھوٹ کا پلندہ ہیں ۔ حسان خان سانحہ کے کئی گھنٹے بعد جائے وقوعہ پر پہنچا ۔ پرجوش کارکنان اکٹھے دیکھے تو تقریر کر ڈالی جو قانون میں یقینا قابلِ گرفت ہوگی۔ دوران تقریر ایک تکلیف دہ قابلِ مذمت جملہ بھی ادا کیا ۔حسان خان کی پشت سے کسی صاحب نے گراؤنڈ سے اوپر ہوا میں پتلون لہرائی ۔ حسان خان کا شاید ہاتھ بھی نہ لگا ہو۔ البتہ ایک فقرہ ادا ہوا جو انتہائی نازیبا اور بحیثیت باپ میرے لیے باعث شرمندگی ہے۔ قانون کے مطابق اسکو اسکی سزا ضرور ملنی چاہیے۔ سمجھ سے بالاتر کہ ادارے کو آرمی ایکٹ1923 دفعہ(d) 2(1) کے تحت مقدمہ کروانے کیلئے جھوٹے الزامات کی ضرورت کیوں پڑ گئی۔اصل من و عن حقیقت سے صرفِ نظر کیوں کرنا پڑا۔ جناح ہاؤس میں توڑ پھوڑ ، حساس دستاویزات کی بے حرمتی سے لیکر اورنجانے کس کس جرم میں ملوث کرنا پڑا ؟ مجھے ریاست پر ترس آ رہا ہے کہ ایک معمولی شہری کو سزا دلوانے میں ریاست کو جھوٹ گھڑنا پڑا ۔
جو مملکت جھوٹ کے بغیر ریاستی نظم و نسق چلانے سے قاصر ہو ، جہاں حکومت ، ادارے ، سیاستدان ، ججز ، جرنیل جھوٹ کے بغیر معاملات کو آگے نہ بڑھا سکیں ،ایسی ریاست کا انجام کیا ہو گا؟ ایسی ریاست کا اللہ ہی حافظ ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ