لاہور(صباح نیوز)نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان و ڈائریکٹرجنرل نافع پاکستان پروفیسر محمدابراہیم خان نے کہا ہے کہ قومی نصاب میں روشن خیالی اور مغربی ایجنڈے کی تکمیل کی خاطر غیر اسلامی اور لبرل تصورات کو شامل کرنے کی مذموم کوشش کی مذمت کرتے ہیں۔ پاکستان کی بنیاد نظریہ اسلام ہے اور نظریہ اسلام نظریہ قیام پاکستان کی بنیاد ہے۔چنانچہ مذہبی قوم پرستی کے مغربی تصور کو تعلیمی نصاب میں شامل کرنا قابل گرفت امر ہے۔ 2021 میں ملک بھر میں یکساں قومی نصاب نافذ کیا گیا لیکن حکومت سندھ نے اسے تسلیم نہیں کیا۔ جس سے حکومت سندھ کی بدنیتی ظاہر ہوتی ہے اور وہ اپنی مرضی کا نصاب صوبے میں مسلط کرنا چاہتی ہے۔ حکومت سندھ کا یکساں قومی نصاب کو تسلیم نہ کرنے کا رویہ قومی وحدت کے بھی خلاف نظر آتا ہے۔ڈائریکٹر قومی نصاب کونسل مریم چغتائی نے اپنے حالیہ چند اخباری بیانات، انٹرویوز اور تقاریر میں پاکستان میں قومی نصاب میں مذہبی قوم پرستی سے متعلق تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے یکساں قومی نصاب کو ایک بار پھر تبدیل کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ وفاقی وزیر احسن اقبال بھی کئی بار یکساں قومی نصاب پر نظرثانی کا اشارہ دے چکے ہیں۔انھوں نے کہا کہ حکومت نے یکساں قومی نصاب پہلی سے پانچویں تک کا نصاب تبدیل کرنے کے حوالے سے نجی پبلیشرز سے مسودے مانگ لیے۔نیا تعلیمی سیشن مارچ میں شروع سے ہوگا،اگر حکومت نئے نصاب کے چکر میں پڑی تو رواں سال بھی گذشتہ دوسالوں کی طرح بچوں کا بڑا تعلیمی نقصان ہوگا اور پرائیویٹ پبلیشرز کو بڑے پیمانے پر مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ان خیالات کا اظہار انھوں نے تعمیرسیرت کیمپ و دیگر وفود کے ساتھ گفتگو میں کیا۔ اپریل میں رمضان المبارک ہے،رمضان المبارک میں طلبہ و طالبات کا روزے کی حالت میں امتحان لینا مناسب نہیں۔اس لیے حکومت کو چاہیے کہ رمضان المبارک سے پہلے پہلے امتحانات لیں۔پروفیسر محمدابراہیم خان نے مزید کہا کہ اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ ملک میں میٹرک اور انٹر سالانہ امتحانات کا تاحال کوئی حتمی شیڈول جاری نہیں کیا گیا۔ تاہم ذرائع کے مطابق پنجاب، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں مڈل کے امتحانات مارچ اور میٹرک کے اپریل سے آغاز ہوگا۔جبکہ یکم مارچ سے اساتذہ کی بڑی تعداد کی مردم شماری میں ڈیوٹی لگائی جانے کا عندیہ بھی حکومت دے چکی ہے۔اس لیے مارچ میں امتحانات کا انعقاد ممکن نہیں لگ رہا۔جبکہ اپریل میں رمضان المبارک ہے،رمضان المبارک میں طلبہ و طالبات کا روزے کی حالت میں امتحان لینا مناسب نہیں۔اس لیے حکومت کو چاہیے کہ رمضان المبارک سے پہلے پہلے امتحانات لیں۔ اگر تعلیمی سیشن اپریل سے شروع ہونا ہے تو نئی درسی کتب مارکیٹ میں بروقت فراہمی یقینی بنانی چاہیے۔ ورنہ ماہ رمضان میں کتابوں کی دکانوں پر بے تحاشا رش اور کتب و سٹیشنری کی وجہ سے والدین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ سالانہ امتحانات کا حتمی شیڈول جاری کرے، درسی کتب کی فراہمی جلد از جلد یقینی بنائے، مردم شماری کو بھی امتحانات اور ماہ رمضان کے بعد کروایا جائے۔ ہمارے ملک میں بچوں کی پرائمری اسکولوں میں داخلے کی شرح ہمارے پڑوسی ممالک سے بہت کم ہے۔اڑھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر اور حصول تعلیم سے محروم ہیں۔
پروفیسر محمدابراہیم خان نے اس بات پر بھی تحفظات کا اظہار کیا کہ گذشتہ دنوں صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے ایک تقریب میں کہاتھا کہ پاکستان میں بچوں کی پرائمری سکولوں میں داخلے کی شرح مایوس کن ہے۔ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پرائمری اسکولوں میں بچوں کے داخلے کی شرح صرف 68 فی صد ہے جبکہ بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش میں بچوں کے داخلے کی شرح 98 فی صد سے زیادہ ہے۔اس خبرپر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے ملک میں بچوں کی پرائمری اسکولوں میں داخلے کی شرح ہمارے پڑوسی ممالک سے بہت کم ہے۔ اڑھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر اور حصول تعلیم سے محروم ہیں۔اتنی بڑی تعداد میں بچوں کا سکولوں سے باہر ہونا اور داخلے کی شرح میں مسلسل کمی ، تعلیمی بجٹ میں کمی ، اسکولوں میں بنیادی انفراسٹرکچر کی قلت اور لاکھوں بچوں کو اسکول سے باہر ہونا جیسے حقائق حکومتوں کی نااہلی کو ظاہر کرتے ہیں۔حال ہی میں چیف جسٹس سپریم کورٹ عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ تعلیم پر کوئی توجہ نہیں دیتا، سندھ گھوسٹ سکولز کے لیے مشہور ہے۔اور یہ حقیقت ہے کہ سندھ میں گھوسٹ اسکولوں کے بارے میں خبریں کئی عرصے سے میڈیا میں بھی گردش کررہی ہیں، لیکن حکومت سندھ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔عدالت کو بھی سوچنا چاہیے کہ ایسی صورت حال میں صرف بیان پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے،بلکہ ان کے خلاف قانونی کاروائی کو عمل میں لانا چاہیے۔ہمارا پورا نظام تعلیم جدید معیارات کا متقاضی ہے،اس میں اولین شرط یہ ہے کہ تعلیمی اداروں سے منسلک سربراہان ادارہ اوراساتذہ اپنے فرض منصبی کو پہچانیں،جب تک ایسا نہیں ہوگا،جتنے اقدامات کریں گے،وہ فائدہ مندنہیں ہوگا۔
پروفیسر محمدابراہیم خان نے کہا کہ گذشتہ دنوں سیکرٹری آئی بی سی سی(انٹربورڈ کمیٹی آف چیئرمین)نے ایک انٹرویومیں رواں سال 2023 سے ملک بھر میں امتحانی نظام میں نئے گریڈنگ سسٹم متعارف کرانے کے حوالے سے کہا کہ میٹرک انٹر کے امتحان سال میں دو دفعہ ہوں گے۔ امتحان دینے والے کے رزلٹ کارڈ (مارکس شیٹ) پر سپلیمنٹری نہیں لکھا جائے گا۔پہلا امتحان اپریل/ مئی اور دوسرا اکتوبر/ نومبر میں منعقد ہوگا۔اس طرح سیپلی کا ٹیگ ختم ہو جائے گا۔رزلٹ کارڈ (مارکس شیٹ) میں نمبر درج نہیں کیے جائیں گے صرف گریڈز اور جی پی اے درج ہوگا۔ تاہم 2023 کے سالانہ امتحانات کے رزلٹ کارڈز میں تو نمبر درج ہوں گے، البتہ 2024 سے مارکس شیٹ میں نمبر نہیں ہوں گے۔نئے گریڈنگ سسٹم کے تحت پاسنگ مارکس 33 فیصد سے بڑھا کر 40فیصد کردیے گئے ہیں۔ یعنی اب 40 فیصد اور اس سے زائد نمبر لینے والا طالب علم کامیاب تصور ہوگا۔ اس سے قبل کم ازکم پاسنگ مارکس 33 فیصد تھے۔سیکرٹری آئی بی سی سی کے انٹرویو پر تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسر محمدابراہیم خان نے کہا کہ ہمارا پورا نظام تعلیم جدید معیارات کا متقاضی ہے،اس میں اولین شرط یہ ہے کہ تعلیمی اداروں سے منسلک سربراہان ادارہ اوراساتذہ اپنے فرض منصبی کو پہچانیں،جب تک ایسا نہیں ہوگا،جتنے اقدامات کریں گے،وہ فائدہ مندنہیں ہوگا۔سرکاری تعلیمی اداروں کا معیار تعلیم بہت ہی غیرمعیاری ہے،معیاری تعلیم کے لیے اقدامات ہونا چاہیے،گھوسٹ اسکولز کا مکمل خاتمہ ہونا چاہیے،تدریسی خدمات کے علاوہ اساتذہ کی کوئی اور ذمہ داری نہیں ہونی چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ بدلتے حالات کے ساتھ ساتھ نظامِ امتحان میں تبدیلی اور جدت ناگزیر ہے،تاہم سیکرٹری آئی بی سی سی کے بیانات کی روشنی میں عرض ہے کہ مجوزہ نئے امتحانی نظام میں نقل کو روکنے کے لیے یا فول پروف بنانے کے لیے کوئی عملی اقدام کا ذکر نہیں کیا گیا۔ جب تک امتحانات میں نقل کے رجحان کی روک تھام نہ کی گئی تو تمام مجوزہ ترامیم موثر ثابت نہیں ہوں گے۔ ہمارے مطابق میٹرک اور انٹر کے امتحانات میں تعینات ہونے والے عملے (سپرنٹینڈنٹ سے لے کر نگران تک)کو فول پروف بنایا جائے۔ رشوت ستانی، نگران عملے کا نقل کے عمل میں حصہ بننا، پرچہ جات کا ماقبل لیک یا پتا لگ جانا جیسے مسائل پر قابو پانا ضروری ہے۔اطلاعات کے مطابق خیبرپختونخوا میں پشاور اور دیگر چند بورڈز اور فیڈرل کے امتحانی مراکز میں نقل کی روک تھام اور عملے کی نگرانی کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کا تجربہ ہوچکا ہے۔ اسے ملک بھر میں قابل عمل بنایا جائے۔
پروفیسر محمدابراہیم خان نے کہا کہ امتحانی نظام میں مارکنگ سسٹم کو بھی بین الاقوامی معیارات کے مطابق ڈھالنے کی اشد ضرورت ہے۔ مارکنگ سسٹم میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، مارکنگ کے لیے موثر تربیت، آن لائن یا ای مارکنگ کا موثر اور فول پروف نظام کا اجرا اور مارکنگ سٹاف کی تربیت کا موثر نظام وغیرہ بہت ضروری ہیں۔اگرچہ خیبرپختونخوا اور فیڈرل بورڈز میں ای مارکنگ کا آغاز کردیا گیا ہے۔ لیکن اسے ملک بھر کے تمام بورڈز میں یکساں طور پر نافذ کیا جائے۔ہمارے ہاں عمومی مشاہدہ ہے کہ میٹرک اور انٹر کے اکثر اساتذہ کو امتحانی نظام، پرچہ جات کی ترتیب اور پرچہ جات کی روبرکس (پرچے میں سوال کو مارک/چیک کرنے کے لیے مکمل تفصیل اور ہدایات)کے بارے میں معلوم نہیں ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ کلاس روم میں روایتی انداز سے پڑھا رہے ہوتے ہیں۔ تعلیمی سیشن کے آغاز پر اساتذہ کی امتحانات اور روبرکس سے متعلق ایک مربوط اور موثر تربیت کا اہتمام کیا جائے۔ چونکہ رواں برس سے میٹرک اور انٹر کے امتحانات ایس ایل او(حاصلات تعلیم)کی بنیاد پر منعقد ہورہے ہیں تو اساتذہ کو دوران تدریس ایس ایل اوز کا نہ صرف اچھی طرح علم ہونا چاہیے بلکہ ایس ایل او خود بھی ترتیب دینے کی صلاحیت پیدا کرنی چاہیے۔ میٹرک اور انٹر سطح کے سائنس مضامین کے عملی امتحانات (پریکٹیکلز)عموما فرضی طور پر منعقد ہوتے ہیں۔ سفارش یا امتحانی عملے کی ملی بھگت سے پریکٹیکلز کے نمبروں کی لوٹ سیل لگائی جاتی ہے۔ پریکٹیکل کی نوٹ بکس بازار میں تیار شدہ مل جاتی ہیں۔ افسوس ناک بات ہے کہ اسکولوں میں سال بھر عملی امتحانات کا انعقاد ہی نہیں کیا جاتا یا صرف چند روایتی طریقوں سے خانہ پری کی جاتی ہے۔ ان تمام مسائل پر قابو پانے کے لیے پریکٹیکل امتحانات پر نظرثانی کی جائے۔