پت جھڑ کا ایک اور موسم … تحریر : وجاہت مسعود


مقبولیت اور احترام دو الگ الگ لفظ ہی نہیں، دو مختلف تصورات ہیں۔ قبول عام تو لمحہ موجود میں گلی کوچے کا ہنگامہ ہے، خام، ناآزمودہ اور سیماب صفت۔ احترام وہ نقد ِخالص ہے جو آزمائش کی بھٹی سے کندن کی صورت برآمد ہوتا ہے، تکمیل اور افادیت کے اوصاف سے مملو۔ افسوس ہے اس قوم پر جس کے تعلیم یافتہ افراد بھی بار بار آمریت کا فریب کھاتے ہیں اور وقتی مفاد کے تعاقب میں جمہوریت کو گالی دیتے ہیں۔ زیادہ دور نہیں جاتے۔ صرف 1988 سے اب تک کی تاریخ دیکھ لیجئے۔ گیارہ سالہ آمریت کے حادثاتی خاتمے کے بعد ہمیں جمہوری عمل کی طرف واپسی کی نوید سنائی گئی۔ کیا ہم نے پوچھا کہ غلام اسحاق خان کو جی ایچ کیو میں طلب کر کے آئندہ حکومتی بندوبست کے خدوخال طے کئے گئے تو عوام اور سیاسی قوتیں کہاں تھیں؟ اگر عدالت عظمیٰ مئی 1988 کے صدارتی اقدام کو غلط سمجھتی تھی تو جونیجو حکومت بحال کیوں نہیں کی گئی۔ عدالتی فیصلے پر اثر انداز ہونے والوں کے اعتراف کے باوجود قانون حرکت میں کیوں نہیں آیا۔ آئی جے آئی تشکیل دے کر نام نہاد سیاسی توازن قائم کرنے کا فیصلہ کس دستوری اختیار کے تحت کیا گیا؟ سیاست دانوں کی نااہلی، بدعنوانی اور بددیانتی کا سہ نکاتی نسخہ گورنر جنرل غلام محمد نے اپریل 1953 میں تیار کیا تھا۔ آٹھویں آئینی ترمیم میں 58(2) ب کا اضافہ کر کے اس نسخے پر نام نہاد دستوری مہر ثبت کر دی گئی۔

نومبر 1988 میں بینظیر شہید کی پہلی حکومت کے پاؤں ہی ٹکنے نہیں دئیے گئے۔ کہیں آدھی رات کے گیدڑ تھے تو کہیں دور فاصلاتی اشاروں پر ہونے والے لسانی فسادات۔ کہیں سیکورٹی رسک کے نعرے تھے تو کہیں وفاق اور صوبوں میں تصادم۔ نومبر 1990 میں نواز شریف کو ایسی ہی مالی اور سیاسی دست کاری سے اقتدار دلایا گیا تھا جیسے اب تحریک انصاف کی ممنوعہ فنڈنگ اور سیاسی سازشوں کا احوال کھل رہا ہے۔ غلام اسحاق اور نواز شریف میں اختلافات بھی آرمی چیف کی تقرری پرہی شروع ہوئے تھے جو کاکڑ فارمولا نامی ماورائے دستور حربے سے اکتوبر 1993 میں بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت پر منتج ہوئے۔ یہ حکومت بھی نومبر 1996 میں منہدم ہو گئی۔ نواز شریف کی دو تہائی اکثریت اکتوبر 1999 میں پرویز مشرف کے ہاتھوں انجام کو پہنچی۔ 2007 کے موسم خزاں میں پھر سے ہمیں سیاست سے لاتعلقی کی بشارت دی گئی۔ اس اعلان کی حقیقت اکتوبر 2011 میں میمو گیٹ کی صورت میں کھلی۔ جیسے اسلم بیگ اور حمید گل نے نواز شریف میں ایک حکیم حاذق ڈھونڈا تھا، دو عشروں بعد عمران خان کی صورت میں ایک مسیحا دریافت کیا گیا۔ 2014 کے موسم خزاں میں کس کی حکومت تھی، کوئی نہیں بتا سکتا۔ محبوب خزاں نے لکھا تھا۔ سب سمجھتے ہیں اور سب چپ ہیں/ کوئی کہتا نہیں کہ تم سے کہیں۔ پانامہ قضیے کا عدالتی فیصلہ تو جولائی 2017 میں آیا مگر یہ کہانی اکتوبر 2016 کے ڈان لیکس ہی میں ختم ہو چکی تھی۔ آرمی چیف کی توسیع کا جھگڑا تھا۔ اکتوبر 2021 میں ایسی ہی کشمکش میں نام نہاد ون پیج کے پرزے اڑ گئے۔ گزشتہ ایک برس سے قوم رسی سے معلق ہے۔ اس دوران معیشت کا پہیہ رک گیا۔ سیلاب نے کروڑوں شہریوں کو بے گھر کر دیا۔ غذائی بحران کے خدشات نے سر اٹھایا۔ زرمبادلہ کے ذخائر ساڑھے سات ارب ڈالر تک اتر آئے۔ وزیراعظم صاحب چین سے 9 ارب اور سعودی عرب سے 4 ارب ڈالر کے معاشی تار عنکبوت کی خبر لائے ہیں۔ دوسری طرف ایک ذمہ دار ریاستی اہلکار نے قوم کو اپنے ادارے کا فیصلہ سنایا ہے کہ سیاسی عمل میں مداخلت سے گریز کیا جائے گا۔ اندھیری گلی میں روشنی کے یہ دو نشان مگر سیاست اور معیشت میں موسم خزاں کے مزمن مرض سے نجات کی ریاضیاتی تصدیق نہیں کرتے۔ سیاسی عمل میں مداخلت پیوستہ معاشی مفادات کے ایک پھیلے ہوئے نظام سے جڑی ہے اور سیاسی عمل کا افلاس بنیادی معاشی فیصلوں کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اہل صحافت کو ہر روز گرجتی برستی خبروں کا پشتارہ میسر آتا ہے مگر قوم کا کیسہ امید سے خالی ہے۔

عمران خان صاحب کے فرمودات کا دفاع ممکن نہیں مگر اس کا جواب تو پارلیمنٹ اور حکومت سے آنا چاہئے تھا۔ کیا ہم نے اس زمینی حقیقت کو جائز تسلیم کر لیا ہے کہ قوم اور ادارہ دو غیرمتصل اکائیاں ہیں۔ اگر ریاستی محکمے کو دستور میں بخشی گئی فصیلوں کی آڑ میسر ہے تو قوم کو بھی دستوری شہر پناہ کی سہولت ملنی چاہئے۔ ہمارے سیاسی اور معاشی بحران باہم پیوست ہیں۔ سیاست کو ایسا دستوری تسلسل چاہئے جو کسی فرد یا جماعت کے اقتدار سے مشروط نہ ہو۔ اس کا اصل ہدف معاشی ترجیحات پر ایسی نظرثانی ہے جو ہمیں آئندہ بیس یا پچیس برس میں معاشی خودکفالت تک پہنچا سکے۔ ہم نے زمین لیز پہ رکھ دی، کسان بیچ دیا، رنگ و بو نیلام کر دیئے، مگر معیشت بدستور زمین بوس ہے۔ ہر تین برس بعد لوٹنے والے پت جھڑ کی گلیوں میں بھٹکتی قوم کے پاس صرف ایک اثاثہ باقی ہے۔ کوئی پندرہ کروڑ کے قریب نوجوان آبادی جس کی معیاری تعلیم کو یک نکاتی قومی ترجیح قرار دیا جائے تو یہ انسانی سرمایہ محتاج قوم کو پیداواری معیشت کی شاہراہ تک لے جا سکتا ہے۔ کم مدتی قرضوں، بانڈز اور سکوک جیسے ہنگامی اقدامات سے برآمد و درآمد کا توازن قائم نہیں ہو سکتا۔ ایسی بیرونی سرمایہ کاری لاحاصل ہے جس کے حاصلات کو برآمدات میں تبدیل نہ کیا جا سکے۔ تارکین وطن سے ترسیلات زر ایک غیر پیداواری تصور ہے جس کے حجم میں کمی ناگزیر ہے۔ کوئی سرمایہ کار ایسی قوم پر اعتماد نہیں کرے گا جو ہر تین برس بعد نومبر کی تعیناتی کے منجدھار میں غوطے کھاتی نظر آتی ہے۔ ہمیں ایک اور پت جھڑ کا سامنا ہے۔ کچھ ایسا سوچنا چاہئے کہ اکتوبر اور نومبر کے مہینوں میں شاخوں سے زرد پتے گریں تو فروری اور مارچ کی کونپلوں کا امکان زندہ رکھا جا سکے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ