شرم الشیخ(صباح نیوز)وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیلاب سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی، موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے، گلوبل رسک انڈیکس کا قیام اور فوڈ سیکیورٹی یقینی بنانے کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے، موسمیاتی تبدیلی کا بوجھ برابری کی بنیاد پر نہیں منصفانہ طور پر تقسیم ہونا چاہئے، عالمی کارپوریشنز تعاون کریں تو بھرپور وسائل دستیاب ہوسکتے ہیں۔ پاکستان کے لئے ترجیحات کبھی بھی واضح نہیں رہیں،فنانسنگ اور ٹائم لائن دونوں لحاظ سے موافقت کے عالمی ہدف کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے،ہمیں اپنے انفراسٹرکچر کی بحالی اور تعمیر نو کے لئے قرضوں کی بجائے اضافی فنڈ کی ضرورت ہے، دنیا کو ہماری مشکلات کو سمجھنا چاہیے ۔یہ بات انھوں نے مصر کے شہر شرم الشیخ میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس (کوپ 27) سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے ترقی پذیر اور کمزور ممالک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے شفاف طریقہ کار کے تحت موسمیاتی فنانس کے نئے، اضافی اور پائیدار وسائل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ موسمیاتی تباہی کی فرنٹ لائنز پر موجود افراد کی حقیقی بحالی کی ضروریات کو برقرار رکھنے کے لئے موجودہ مالیاتی فرق بہت زیادہ ہے، اقوام متحدہ کے نظام کے تحت ایک عالمی موسمیاتی رسک انڈیکس بنایا جانا چاہئے، یہ اب یا کبھی نہیں والا معاملہ ہے، پیرس معاہدے میں بیان کردہ طریقہ کار سے بھی زیادہ ذمہ داریوں کا احترام ہونا چاہئے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے یو این کلائمیٹ چینج کانفرنس کاپ 27 کے سربراہ اجلاس سے خطاب میں قومی نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے کیا۔
وزیراعظم نے کاپ 27 کانفرنس کی میزبانی پر مصر کے صدر عبدالفتح السیسی کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ کوپ 27 واحد پلیٹ فارم ہے جہاں نسل انسانی کی بقا کو ایک مقصد کے طور پر مدنظر رکھا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا فورم بھی ہے جہاں کمزور ممالک اپنا معاملہ امیر اور وسائل کے حامل ممالک کے سامنے پیش کر سکتے ہیں تاکہ انصاف کا مشترکہ مقصد حاصل ہو اور ایک ایسی دنیا میں ضروری پالیسیوں کی بحالی کے لئے ایک روڈ میپ اپنایا جا سکے جو ہماری صلاحیت سے زیادہ تیزی کے ساتھ بحالی میں مدد دے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں تباہ کن سیلاب سے 33 ملین افراد متاثر ہوئے جن میں آدھے سے زیادہ خواتین اور بچے شامل ہیں۔ ملک کے جنوبی علاقوں میں اوسطا سے زائد سات گنا بارش ہوئی، ہم پگھلتے ہوئے گلیشیئرز سے ہونے والی تباہی سے بچنے کیلئے کوشاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب کے باعث ملک کے شمال میں 8 ہزار کلو میٹر سے زائد سڑکیں تباہ ہوئیں، 3 ہزار کلو میٹر ریلوے ٹریک کو نقصان پہنچا اور سینکڑوں پل تباہ ہوئے اور کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم آہستہ آہستہ لوگوں کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سیلاب کے باعث ملک میں 30 ارب امریکی ڈالر کا نقصان ہوا۔ ہمارے ملک کا کاربن گیسوں کے اخراج میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے، پاکستان کے لئے ترجیحات کبھی بھی واضح نہیں رہیں۔ فنانسنگ اور ٹائم لائن دونوں لحاظ سے موافقت کے عالمی ہدف کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ ہم نے تاحال موافقت اور مالیات کے حوالے سے وعدوں میں توازن نہیں دیکھا، موسمیاتی تباہی کی فرنٹ لائنز پر موجود افراد کی حقیقی بحالی کی ضروریات کو برقرار رکھنے کے لئے موجودہ مالیاتی فرق بہت زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ نقصانات کو پورا کرنے کا معاملہ کاپ 27 کے بنیادی ایجنڈے کا حصہ بنانا ہوگا تاکہ ان لوگوں کی انسانی ضروریات کو پورا کیا جا سکے جو قرضوں کی وجہ سے عوامی مالی امداد کے بحران میں پھنسے ہوئے ہیں اور پھر بھی انہیں اپنے طور پر موسمیاتی آفات کے لئے فنڈز فراہم کرنے پڑ رہے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ کلائمیٹ فنانس کو واضح طور پر نئے، اضافی اور پائیدار وسائل کے طور پر ایک شفاف طریقہ کار کے ساتھ بیان کیا جانا چاہئے جو ترقی پذیر اور کمزور ممالک کی ضروریات کو اس رفتار اور پیمانے کے ساتھ پورا کرتا ہے جس کی ضرورت ہے۔اب اس بات پر مکمل وضاحت ہونی چاہئے کہ موسمیاتی منتقلی اور ترقیاتی مالیات کا کتنا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2009 میں کوپن ہیگن میں کوپ 15 میں 2020 تک سالانہ 100 ارب ڈالر فراہم کرنے کے وعدے کئے گئے تھے لیکن وہ ابھی تک پورے نہیں ہوئے۔ اقوام متحدہ کے نظام کے تحت یو این ایف سی سی سی کے تمام فریقین کا ایک عالمی موسمیاتی رسک انڈیکس بنایا جانا چاہئے۔ اس انڈیکس میں سب سے زیادہ کمزور ممالک کے منصوبوں کو کلائمیٹ فنانس کیلئے ترجیح اور تیزی سے منظوری ملنی چاہئے۔
وزیراعظم نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے بوجھ کی واضح تقسیم کے فارمولے کی بحالی کی ضرورت ہے۔ پیرس معاہدے میں بیان کردہ طریقہ کار سے بھی زیادہ ذمہ داریوں کے وعدے کا احترام کیا جانا چاہئے۔ پاکستان کی این ڈی سیز میں 2030 کے لئے خواہشات بہت سے ممالک سے پہلے ہی زیادہ ہیں لیکن ہم اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب تک صلاحیتوں، مالیات اور ٹیکنالوجی کے بہائو میں تبدیلی نہیں آتی، شمال اور جنوب کے درمیان معاملات طے نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ سیلاب کے دوران ہم نے گندم، پام آئل، تیل و گیس برآمد کیا۔ ہم نے اپنے تمام وسائل کا رخ لاکھوں سیلاب متاثرین کی مدد کے لئے موڑ دیا ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے لاکھوں گھرانوں کو امداد فراہم کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ موسم کا سرما کا آغاز ہو چکا ہے، ہمیں سیلاب متاثرین کو شیلٹر، میڈیکل ٹریٹمنٹ اور خوراک فراہم کرنی ہے اس کے لئے ہم اربوں روپے خرچ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کی جانب سے مشکل وقت پر امداد پر شکرگزار ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ دنیا کو ہماری مشکلات کو سمجھنا چاہیے۔ دیگر ممالک بھی ایسی موسمیاتی یا انسان ساختہ قدرتی آفات کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے انفراسٹرکچر کی بحالی اور تعمیر نو کے لئے قرضوں کی بجائے اضافی فنڈ کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ اس کوپ کے انعقاد سے کنونشن اور پیرس معاہدے کے اہداف میں حصول کے لئے مشترکہ بنیاد میسر آئے گی۔ یہ اب یا کبھی نہیں کا معاملہ ہے اور ہمارے لئے واقعی کوئی دوسرا کرئہ ارض نہیں ہے۔ اس سے قبل وزیراعظم شہباز شریف نے مصر میں موسمیاتی تبدیلی اور کمزور کمیونٹیز کے استحکام کے موضوع پر کانفرنس کے آخری سیشن سے خطاب کیا، اس موقع پر ناروے کے وزیراعظم جوناس گیہرسٹور بھی موجود تھے۔
وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی رواں دہائی کا بڑا بحران ہے، ہم اس کیخلاف اپنی اجتماعی لڑائی کے تاریخی لمحے میں ہیں، ہمارے پاس کوئی دوسرا کرہ ارض نہیں ہے۔ اب یہ ایک مسلمہ سائنسی حقیقت ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ ہماری منصوبہ بندی سے کہیں زیادہ تیزی سے ہورہی ہے، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ترقی پذیر یا کم ترقی یافتہ ممالک اور کمیونٹیز جو فرنٹ لائن پر ہیں، کو مدد کی اشد ضرورت ہے، ہماری طرح گیسز کے کم اخراج والے ممالک زندگی اور معاش کے حوالے سے بدلتے ہوئے خطرات کا سامنا کر رہے ہیں۔
شہباز شریف کا کہنا ہے کہ میرا اپنا ملک بھی اس صورتحال سے گزر رہا ہے، پاکستان میں تباہ کن سیلاب نے تیزی سے ہمارے ذہنوں کو اس بات پر مرکوز کر دیا ہے کہ اس طرح کی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سب سے زیادہ کمزور طبقے پر پڑتے ہیں، سیلاب سے متاثرہ 33 ملین افراد میں سے نصف سے زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے، جن میں سے 6 لاکھ 50 ہزار حاملہ خواتین کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، ہمارے کسانوں اور فارمرز کا معاش تباہ ہوگیا، 4 ہزار 410 ملین ایکڑ زرعی زمین کو نقصان پہنچا، سندھ میں کپاس کی پوری کی پوری فصل تباہ ہوگئی، تقریبا 40 لاکھ بچے صحت کی سہولیات تک رسائی سے محروم ہوگئے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ایک ہفتہ پہلے تک 82 لاکھ افراد کو صحت کی خدمات کی فوری ضرورت تھی، انسانیت موسمیاتی تبدیلی کے ایک نئے دور میں داخل ہوچکی ہے، قابل قبول موسمیاتی تبدیلی کی حد پہلے ہی عبور ہوچکی ہے، پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ یقینا یہاں تک محدود نہیں رہے گا، اس کا ثبوت نائیجیریا اور جنوبی سوڈان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے حالیہ اثرات ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ عالمی بینک کا اندازہ ہے کہ اگر ہم نے موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے اب اقدامات نہ کئے تو 2050 تک 216 ملین افراد بے گھر ہوجائیں گے، جن کی زیادہ تر تعداد افریقا اور جنوبی ایشیا میں ہوگی، پچھلی دو دہائیوں کے دوران جنوبی ایشیا میں 750 ملین افراد موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والی تباہی سے متاثر ہوئے، 2030 تک ترقی پذیر ممالک میں 100 ملین افراد خط غربت کا شکار ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہم نے 20 ہفتوں میں 26 لاکھ سے زائد افراد کو 300 ملین ڈالر کی منتقلی کے ذریعے ان کی پہلی ضروریات پوری کرنے کیلئے اقدامات کئے، پاکستان میں حالیہ سیلاب نے10 ملین شہریوں کو بے گھر کیا جو اپنے ہی ملک میں موسمیاتی پناہ گزینوں میں تبدیل ہوگئے۔
وزیراعظم کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بہت زیادہ تعداد میں گلیشیئرز موجود ہیں اور برف پگھلنے کی اوسطا شرح 3 گنا ہے، حکومت پاکستان نے 2018 میں کل پروٹیکٹڈ ایریاز کو 12 فیصد سے بڑھا کر 2023 تک 15 فیصد کرنے کے مقصد کے ساتھ محفوظ علاقوں کے اقدام کا آغاز کیا اور یہ ہدف حاصل کیا گیا، ہمارا سب سے بڑا موافقت کا پروگرام لیونگ انڈس انیشی ایٹو انتہائی اہمیت رکھتا ہے، جو 25 علاقوں میں شروع ہوگا تاکہ کمیونٹیز کو سیلاب کے انتظام اور دریا کو آلودہ ہونے سے بچایا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں متاثرہ روزگار اور آمدن موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے بنیادی ڈھانچے، موسمیاتی تبدیلی کے خطرے اور وارننگ سسٹمز کے لئے وسائل خرچ کرنے اور موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات سے بحالی کیلئے کلائمیٹ فنانس کی ضرورت ہے۔شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ہمیں مل کر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا مسئلہ فوری حل کرنے کی ضرورت ہے، موسمیاتی تبدیلی کا بوجھ برابری کی بنیاد پر نہیں منصفانہ طور پر تقسیم ہونا چاہئے، یہ موسمیاتی انصاف کا معاملہ ہے، ہمیں چاہئے کہ اس موقع کو بروئے کار لاتے ہوئے دنیا کی سب سے کمزور اقوام کے مستقبل کو محفوظ بنائیں۔