اقبال اور جہانِ تازہ : تحریر اکرم سہیل


 صدیوں سے روح اور مادہ کی باہمی آویزش انسانی اعتقادات اور اعمال میں ہمیشہ جھلکتی رہی۔یورپ میں چرچ کی اجارہ داری نے زندگی کے مادی تصورات کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا بلکہ کلیسا نے مذہب کے نام پر اپنی آمریت کو سماجی سیاسی اور معاشی نظام کو مقید کیا ہوا تھا۔ ہر سائنسی ایجاد بھی کفر والحاد کہلاتی تھی۔اس کا ردعمل یہ ہوا ک پھر مذھب کو ریاستی معاملات سے بے دخل کر دیا گیا۔اسی کے نتیجہ میں یورپ میں سیکولرزم کی اصطلاع معرضِ وجود میں آئی۔جو اب ارتقاء پذیر ہو کر ان ممالک میں مذہبی ھمہ گیریت کے معنوں میں ڈھل چکی ہے جس کے مطابق ہر شہری کا اپنا اپنا مذہب اور حکومت اس میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ اس زمانے کے حوالے سے اگر ھم علامہ اقبال کے تصورات جو ان کی کتاب ’’مذھبی تصورات کی تشکیلِ جدید‘‘ اور ان کی شاعری میں دیکھیں تو اس میں انسان کے ذاتی اعتقادات اور دنیاوی معاملات الگ الگ نہیں ہیں بلکہ دین کے بنیادی تصورات ہی مادی معاملات کی بنیاد ہیں۔اقبال کے نزدیک اسلام کے نظریات اور تصورات میں وہ بنیادیں موجود ہیں جو تمام مادی معاملات کو زمانے کےارتقاء اور ہر زمانے کے بدلتے ہرئے حالات کیلئے رہنمائی کر سکتے ہیں ۔یعنی اسلام میں جمود نہیں کیونکہ۔بقول اقبال۔ یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید۔ کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکون۔ اقبال کے سماجی ارتقاء کے نظریات میں روح اور مادہ الگ الگ نہیں۔ اگر مادی ترقی کو روحانی ترقی سے الگ کر دیا جائے گا تو وہ مادی ترقی انسانی فلاح و بہبود کے بجائے انسانوں پر جبر ،ان کے استحصال اور دنیا میں طاقت کے اصول پر ظلم کی کھیتیاں ہی اگائے گی۔اور انسان اپنے اپنے مفادات کا غلام بنا کر دوسروں کے خون کا پیاسا بن جائے گا۔اسی لئے اقبال انسانی مادی ترقی کو اسلام کے ان آ فاقی اصولوں کے تابع رکھنا چاہتا ہے جو بلا تخصیص رنگ و مذھب و ملت، انسانی مساوات،رواداری،مذہبی اور فکری آزادی کی گارنٹی دیتے ہیں۔بقول اقبال ۔ بنی آدم اعضائے یک دیگرم۔ کی بنیاد پر ایک ایسے انسانی معاشرے کی تشکیل کرے جو کلِ انسانیت کو امن و سلامتی کا ابدی پیغام دے۔اسی لئے اسلام دنیا اور دین کی دوئی کا قائل نہیں اسی لئے اس میں رہبانیت نہیں بلکہ ایسے اصول وضع کئے گئے کہ انسان اپنے مادی وسائل کا مالک نہیں صرف امین ہے کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک صاف۔منعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں۔ یورپ میں سیکولرزم نے مسیحیت کو شکست دی تو اس سے بے رحم مادہ پرستی نے جنم لیا۔یہی وجہ ہے کہ یورپ کا سرمایہ دارانہ نظام غریب ملکوں اور قوموں پر چڑھ دوڑنے، ان کے قتلِ عام اور ان کے وسائل پر قبضہ کرنا کسی قسم کی بد اخلاقی میں نہیں آتا۔ اقبال کے بقول سائنسی اور عمرانی علوم سے خدائی تصورات کو خارج کرنے کا نقصان یہ بھی ہوا کہ تمام سائنسی علوم کو صرف مادہ کے حوالہ سے پرکھا گیا اور اس بات سے انکار کر دیا گیا کہ ان کا کوئی بنانے والا بھی ہے اور ان ملکیت اور ان کے استعمال کے جائز یا ناجائز استعمال کیلئے ہمیں کہیں جواب دہ بھی ہونا یے۔ اس طرح معاشی اور معاشی نظریات پروان چڑھے کہ طاقتوروں نے دنیا پر اپنی خدائی قائم لی۔۔اقبال نے اسلام میں دین و دنیا کی دوئی کو مٹاتے ہوئے اسلام کی بنیادیں اس طرح بھی واضع کیں ۔ ؎ کس نباشد در جہاں محتاج کس۔۔ نقطئہ شرعِ مبیں ایں است و بس۔۔۔ ان تصورات میں مذھبی آزادی، حریتِ فکر،سماجی،معاشی اور انسانی مساوات اس کی بنیاد ہیں اور ان کی بنیاد پر ایسے معاشرے کی تشکیل ہے جس میں انسان،معاشی محکوم بن کرطاقتور اور استحصالی طاقتور طبقات کا غلام بن کر نہ رہ جائے۔کہ لا الہ کا تصور بھی یہی ہے کہ انسان، انسان کی غلامی سے آزاد ہو کر ہی اپنے رب کے سامنے حقیقی معنوں میں سر بسجود ہو سکتا ہے۔۔ اقبال کے بقول ؎ کس دریں جا سائل و محکوم نیست ۔ عبدو مولا حاکم و محکوم نیست۔ ۔