اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت۔۔۔۔شکیل احمد ترابی


پانچ فروری کی کشمیر کی تاریخ میں کوئی اہمیت تھی ناں حوالہ۔تین عشرے قبل ہندوستان کے زیر قبضہ کشمیر کے ہزاروں نوجوانوں نے اپنے وطن کو جابر بھارتی حکمرانوں کے تسلط سے چھڑانے کے لئے آزادی کے بیس کیمپ آزاد کشمیر کا رخ کیا تو ان کی دیکھ بھال کا کوئی مناسب انتظام تھا نہ ہی کسی کو اس کی پرواہ۔ آزاد کشمیر حکومت کے پاس وسائل کی کمیابی ہی اصل مسئلہ نہ تھی بلکہ حکمران کسی نادیدہ خوف کا شکار بھی تھے۔ مقبوضہ کشمیر سے آنے والے مجاہدین کی تعداد رکنے کا نام نہ لے رہی تھی۔

جب کوئی حقیقت کا ادارک نہ کر رہا تھا ، عقل مصلحت کا شکار تھی تو ایسے میں جماعت اسلامی کے انقلابی و سیمابی امیر قاضی حسین احمد رحمتہ اللہ علیہ کے عشق نے کسی خطرے کی پرواہ کئے بغیر آتش نمرودمیں چھلانگ لگا دی۔ پانچ جنوری 1990 ء کو پریس کانفرنس میں جناب قاضی حسین احمد نے قوم کو مقبوضہ کشمیر سے آنے والے نوجوانوں کی آمد سے آگاہ کیا، پانچ فروری کو پورے ملک اور دنیا بھر میں موجود پاکستانیوں سے کشمیریوں کیساتھ یکجہتی کا دن منانے کی اپیل کردی ۔ مجاہد راہنما کی اذان پر وفاقی و صوبائی حکومتوں کو بھی لبیک کہنا پڑا۔ پھر یہ روایت بھی بنی کہ پاکستان کے صدر مملکت یا وزیر اعظم اس روز آزادی کے بیس کیمپ مظفرآباد جاتے ، وہاں جلسوں یا آزاد کشمیر کونسل و اسمبلی کے مشترکہ اجلاس سے اپنے خطاب کے ذریعے برسر پیکار کشمیریوں کی ہمت و حوصلہ بڑھانے کا اہتمام کرتے۔

پانچ اگست 2019 ء کو ہندوستان کے ظالم ، جابر اور قاتل وزیراعظم نریندرا مودی نے ایک صبح بے نور کا آغاز کرتے ہوئے بھارتی دستور میں ترمیم کر کے کشمیریوں کو مزید غلام بنانے کا اہتمام کیا۔ ایک چال مودی نے چلی اور ایک چال ہمارا رب چلتا ہے، ہمارے رب کی چال کے نتیجے میں جو آگ مودی نے کشمیر میں لگائی تھی وہ آج پورے ہندوستان میں پھیل چکی ہے جو مودی کے مکروہ عزائم کو بھسم کر کے چھوڑے گی۔ انشااﷲ

بھارتی فوج اور پیرا ملٹری فورسز کے پندرہ لاکھ اہلکاروں نے کشمیریوں کا جینا دو بھر کر دیا ہے۔ پانچ اگست کے بعد پورا کشمیر جیل کی سی صورت اختیار کر چکا ہے۔ ان حالات میں اس بار کا پانچ فروری کچھ زیادہ اہمیت کا حامل تھا۔

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے کشمیر کونسل و اسمبلی کے مشترکہ اجلاس سے خطاب سے قبل آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے اپنے خطاب میں اپنے مہمان خصوصی کا خیر مقدم کیا اور کشمیر کی دگرگوں صورت حال کے پیش نظر انتہائی درد دل سے جناب عمران خان سے گزارش کی کہ وہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی ساری قوم اور قیادت کو ساتھ لیکر چلیں۔ فاروق حیدر نے ایک سچے کشمیری جس کی امیدوں کا مرکز پاکستان ہے ، جو حرمین شریفین کے بعد پاکستان کو مقدس ترین زمین سمجھتے ہیں۔ ایک محب وطن سپاہی کی طرح انھوں نے کہا کہ ہندوبنئے کی ناپاک گولی پاکستان کی طرف جانے سے قبل فاروق حیدر کے سینے کوچیرے گی ۔ یہ سوچ صرف فاروق حیدر ہی کی نہیں بلکہ جوان ہمت بزرگ سید علی گیلانی سمیت کشمیریوں کی اکثریت کی ہے۔ جی ہاں سید علی گیلانی جو کہتے ہیں ” ہم پاکستانی ہیں ، پاکستان ہمارا ہے”۔

فلسطین کے تناظر میں فاروق حیدر نے وزیر اعظم پاکستان سے گزارش کی کہ وہ امریکی صدر ٹرمپ کے جھانسے میں نہ آئیں کیونکہ اس کی ثالثی کے نتیجے میں بھارت کا فائدہ ہوگا، کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں پسِ پشت چلی جائیں گی۔ انھوں نے وزیر اعظم پاکستان سے اپنا دکھ بیان کرتے ہوئے اس توقع کا اظہار کیا کہ وہ ان کی گزارشات کا برا نہیں منائیں گے بلکہ کشمیری جن اقدامات کی توقع کرتے ہیں وہ اٹھائیں گے۔ فاروق حیدر نے رنجیدہ دلی کیساتھ یہ شعر پڑھا کہ: ۔

وقت نے دی ہے تمہیں چارہ گری کی مہلت آج کی رات مسیحانہ فساں آج کی رات وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان بجائے اس کے کہ وقت کی آواز بنتے اور کشمیریوں کی ہمت بندھاتے انھوں نے

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا وہ بات ان کو بہت نا گوار گزری ہے (فیض)

کہ مصداق خطاب کے آغاز ہی میں کہا کہ آپ کی مہربانی مجھے ان لوگوں سے مفاہمت کا نہ کہیں جنھوں نے پیسہ لوٹا اورملک کو بدحال کیا ہے۔ میری کسی سے ذاتی دشمنی نہیں مگر میں ملک میں چوری کرنے والوں سے دوستی کیسے کر لوں ۔؟

فاروق حیدر کے شعر کے جواب میں کہا کہ عام طور پر میں شعر نہیں پڑھتا مگر

مفاہمت نہ سکھا جبر ناروا سے مجھے میں سربکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے

جناب وزیراعظم پاکستان کاش آپ سر بکف ہوتے اور بلا( مودی) سے لڑتے، مگر آپ کو تو اندرونی سیاست ، پہلے کرسی حاصل کرنے اور پھر اسے بچانے سے فرصت نہیں۔

اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

کشمیر جل رہا ہے۔ نوجوان تہ تیغ کئے جارہے ہیں ، پاکیزہ صفت ماں اور بہنوں کی عصمتیں محفوظ نہیں۔ کشمیریوں کے حقیقی منتخب نمائندے فاروق حیدر نے آپ سے کسی چور اور ڈاکو کے لئے کوئی رعائیت تو نہیں مانگی تھی۔ فاروق حیدر مصلحت کوش انسان نہیں ، لگی لپٹی کے بغیر اپنا مافی الضمیر بیان کرنے والا راہنما ہے۔ مگر گھر آئے مہمان کا احترام اور ذمہ داریوں نے اسے خاموش رہنے پر مجبور کیا۔مگر جناب عمران خان گھر کے بچوں کے دانت نہیں گنے جاتے انکی تاریخ پیدائش معلوم ہوتی ہے۔بڑے ادب سے گزارش ہے کہ کسے معلوم نہیں ملک کے اہم ادارے سے متعلق آپ کے ارشادات کیا ہوتے تھے۔ کچھ وہ بدلے کچھ آپ نے مفاہمت سیکھی تو اقتدار کا سنگھاسن آپ کے سپرد کیا گیا۔اپنا بہت کچھ کہا آپ روز بھول جاتے ہیں ، ابھی کل ہی کی بات ہے کسی کو اپنا چپڑاسی بھی نہ بناؤں کس نے کہا تھا۔؟ پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو بھی آپ ہی نے کسی کو قرار دیا تھا۔ ایک لسانی تنظیم جس کی فسطائیت کا اہل کراچی شکار تھے۔اس جماعت اور اس کے قائد سے متعلق آپ کے ارشادات اور برطانیہ جا کر اس کیخلاف مقدمات کے اندراج کی بات آپ ہی نے تو کی تھی۔نااہل میاں نواز شریف ہوں یا جہانگیر ترین ، دونوں کیخلاف فیصلہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے کیا تھا۔ پھر ایک نااہل سوہانِ روح تو دوسرا آپ کا روح رواں کیوں؟، اہم فیصلے اور اقدامات وہی کرتا ہے بلکہ اس کے بغیر تو آپ کی سانس نہیں چلتی۔ اقتدار کی اعلیٰ ترین کرسی پر پہنچنے کے لئے ترین و بدترین ، چپڑاسی، ڈاکو اور فسطائی جماعت سے مفاہمت کس نے اختیار کی ۔؟

اپنے لئے تو ہر ایک سے مفاہمت جائز مگر مجبور و مہقور کشمیریوں کے لئے ایسا کرنا آپ کے نزدیک جرم عظیم ہے ۔ کیسا دہرا معیار جناب والا آپ کا۔؟ جناب عمران خان آپ کو ہر ایک پر تنقید کا حق حاصل ہے ۔ مگر آپ کے بارے کسی اور کا بولنا یا لکھنا آپ کو پسند نہیں۔ اس لئے ہم آپ ہی سے گزارش کرینگے کہ تنہائی کا اہتمام کر کے غور و فکر کیجئے اور خود اپنی اداؤں کا جائزہ لیجئے۔

مودی کے عاقبت نااندیشانہ اقدامات کے نتیجے میں ہندوستان بدترین اندرونی خلفشار کا شکارہے۔کاش آج اسلام آباد تنومند ہوتا اوران حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوستان کو اس ہی کی زبان میں جواب دیتا۔ ہماری غلط پالیسیوں کے نتیجے میں کابل کے لئے آج ہم اجنبی ہیں خدا نہ کرے کشمیریوں کے لئے بھی کل ہم اجنبی بن جائیں۔

قیادت بالغ نظر ہوتی ہے نہ کہ نادان بچوں کی طرح ضدی۔ بانی پاکستان نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا سوچ لیں کہ شہ رگ کے بغیر باقی جسم کی حیثیت کیا ہو گی۔؟ یاد رکھئیے احتساب اور انتقام میں بہت فرق ہوتا ہے ، اور دوسروں کے احتساب سے قبل اپنے ہم سفروں کا بھی جائزہ لیجئے۔

اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ