10اکتوبر کی رات کو جب دہلی کے آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں پچھلے پانچ سالوں سے تہاڑ جیل میں قید حریت لیڈر اور بزرگ کشمیری لیڈر مرحوم سید علی گیلانی کے داماد، الطاف احمد شاہ کی موت کی خبر آئی، تو شاید ہی اس پر کسی کو حیرت ہوئی ہو۔ قیدیوں کو علاج و معالجہ کی سہولیات فراہم نہ کرنے کے سبب پچھلے ایک سال میں یہ کسی سیاسی قیدی کی موت کا چھٹا واقعہ ہے۔ ان میں کشمیر سے جماعت اسلامی کے رکن غلام محمد بٹ، تحریک حریت کے صدر محمد اشرف صحرائی کے علاوہ مہاراشٹرہ میں بائیں بازو کے ماؤنوازں کو مدد دینے کے الزام میں قید 83سال کے پادری سٹن سوامی، 33 سال کے پانڈو ناروتے اور 38برس کی عمر کے کنچن نانووارے شامل ہیں۔ نانووارے کی پچھلے سال جنوری میں دوران حراست غلط برین سرجری کی گئی تھی جس کے بعد ان کی موت ہوگئی۔ حیرت کا مقام ہے کہ عدالتیں، پولیس اور تفتیشی ایجنسیوں کے اس استدلال کو تسلیم کرتی ہیں کہ جیلوں میں علاج و معالجہ کی سہولیات موجود ہیں، اس لئے اس گراؤنڈ کو لیکر ضمانت نہیں دی جا سکتی ہے۔ مگر جیل میں کس قدر علاج و معالجہ کی سہولت دستیاب ہیں اور وہاں ڈاکٹروں کا رویہ کیسا ہوتا ہے، اس کا میں خود گواہ ہوں۔ تہاڑ جس کو ایک ماڈل جیل کے بطور پیش کیا جاتا ہے کی جیل نمبر تین میں واقعی ایک بہترین اسپتال ہے، جس کو ججوں و معائنوں پر آئے افسران اور کسی وقت غیرملکی ٹیموں کو دکھا کر متاثر کیا جاتا ہے ۔ 2002 میں جب نو روز تک دہلی پولیس کی اسپیشل سیل کے انٹروگیشن میں رہنے کے بعد مجھے تہاڑ جیل منتقل کیا گیا تو داخلہ کے وقت ہی مجھے جیل ڈاکٹروں کے رویہ کا ادراک ہوا۔ جیل سپرنٹنڈنٹ کے آفس کے بعد کاغذی کارروائی پورا کرنے کیلئے مجھے جیل آفس سے متصل ڈاکٹر کے سامنے پیش کیا گیا تو بجائے مجھے دیکھنے کے وہ مجھ پر لگائے گئے الزامات دریافت کرنے لگا۔ جب اس کو معلوم ہوا کہ میں آفیشل سیکرٹس ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہوں تو اس نے پاکستانی ایجنٹ ہونے کا الزام لگا کر مجھے کوسنا شروع کردیا۔ ڈاکٹر اور اس کے اسسٹنٹ کو نئے قیدیوں کو سیل یا وارڈوں میں بھیجنے سے قبل ان کی طبی جانچ اور اگر وہ زخمی ہوں تو اس کا اندراج کرنا ہوتا ہے۔ میری ناک اور کان سے خون رس رہا تھا۔ اس نے ان زخموں کو پولیس اور انٹروگیشن کے کھاتے میں ڈال کر مجھے دستخط کرنے کیلئے کہا۔ میں نے اس کو کہا کہ یہ خاطر داری چند لمحے قبل جیل آفس میں ہی ہوئی ہے۔ اس کا پولیس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کو یقین نہیں آرہا تھا کہ مجھ جیسے غدار کو پولیس نے کیسے بخشا ہے۔ خیر اس نے جیل حکام کے حوالے کرکے مجھے سیل میں لیجانے کا اشارہ دے دیا۔ جیل نمبر تین کے اس اسپتال میں جہاں الطاف شاہ کو کئی ماہ تک کینسر کا علاج کرنے کے بدلے بس پین کلر دیکر واپس سیل میں بھیج دیا جاتا تھا کے او پی ڈی میں میرا اکثر آنا جانا لگا رہتا تھا۔ اسٹیتھوسکوپ لگانا تو دور کی بات ڈاکٹر قیدیوں کو دور رکھ کر ان کو ہاتھ لگائے بغیر علاج تجویز کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یا تو مریضوں کو چھو کر وہ اپنا دھرم بھرشٹ نہیں کرنا چاہتے ہیں یا حکیم بقراط کی طرح وہ دور سے ہی چال دیکھ کر ہی تشخیص کرتے ہیں۔ بجائے مریض سے اس کی بیماری کے بارے میں پوچھنے کے، وہ اس کے کیس کے بارے میں تفتیش کرکے، سزائیں بھی تجویز کرتے رہتے ہیں۔ میڈیکل سائنس کی پوری اخلاقیات کا جیل کے ڈاکٹروں نے جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے۔ علاج کے نام پر تمام مریضوں کو ایک ہی دوا دیتے تھے، چاہے پیٹ کا درد ہو یا نزلہ یا زکام۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار ہمار ے وارڈ میں ایک قیدی کو شدید نزلہ، زکام لاحق ہو گیا تھا اور دوسرے قیدی کو دست ہوگئے تھے۔ دونوں جب اسپتال سے واپس آئے تو معلوم ہواان کو ایک ہی گولی دی گئی تھی اور ستم ظریفی تو یہ ہے کہ دونوں صحت یاب بھی ہوگئے۔ اس پر ایک دوسرے قیدی نے لقمہ دیا کہ دراصل دونوں کے جسم میں گندگی جمع ہو گئی تھی۔ ایک کی گندگی ناک و منہ سے نکل رہی تھی اور دوسرے کی گندگی نے دوسرا راستہ اختیار کیا تھا۔ اس ایک گولی نے اصل میں گندگی کو ٹھیک کردیا۔ تہاڑ میں گذرے آخری دنوں میں جب میرا کیس تقریبا ختم ہونے کے قریب تھا، میڈیا نے باہر دباؤ بنایا ہوا تھا اور حکومت خود ہی اس کو واپس لینے پر غور کر رہی تھی، میں جیل حکام کا خاصا لاڈلا بن گیا تھا۔ اس عرصہ میں وہ میرا بڑا خیال رکھتے تھے۔ ایک رات میرے پیٹ میں سخت درد اٹھا کہ برداشت سے باہر ہوگیا۔ کئی بار الٹیاں ہوگئی تھیں۔ رات کی ڈیوٹی پر مامور جیل حکام بیرکوں اور وارڈوں کو بند کر کے جیل آفس میں جا کر آرام کرتے ہیں۔ میرے ساتھی قیدیوں نے شور مچا کر جیل آفس تک آواز پہنچانے کی کوشش کی۔ آدھے گھنٹے کے بعد ایک وارڈن آ گیا اور بیرک کی سلاخوں کے باہر سے ان کو ڈانٹ کر پوچھاکہ وہ کیوں شور مچا رہے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ قیدی کی طبیعت خراب ہے۔ اس نے نام پوچھا۔ گیلانی کا نام سنتے ہی اس نے کہا کہ مرنے دو اور واپس چلا گیا۔ قیدی بھی سکتے میں آ گئے۔ تھوڑی دیرکے بعد بیرک میں موجود پچاس سے زائد قیدیوں نے دوبارہ چیخ و پکار بلند کی کیونکہ کچھ عرصہ قبل اسی وارڈ میں ایک قیدی کی رات کے وقت موت ہوگئی تھی اور صبح سویرے پورے وارڈ کی کلاس لی گئی تھی کہ انہوں نے جیل حکام کو کیوں آگاہ نہیں کرایا۔ جیل سپرنٹنڈنٹ نے ہدایت دی تھی کہ ایسی صورت حال میں گلا پھاڑ کر چیخ و پکا ر بلند کیا کریں تاکہ آواز جیل کنٹرول روم تک پہنچے۔ ایک گھنٹے کے بعد دوسرا وارڈن ڈاکٹر سمیت آگیا اور بیرک کھول کر مجھے اسپتال میں داخل کروایا۔ اگلے روز پہلے والا وارڈن اسپتال میں آکر معافی مانگ کر صفائی دینے لگا کہ وہ سمجھ رہا تھا کہ پارلیمنٹ والا گیلانی (مرحوم عبدا الرحمان گیلانی جو پارلیمنٹ حملہ کیس میں انہی دنوں اسی جیل میں تھے اور بعد میں بری ہو گئے) ہے، اس لئے اس نے دھیان نہیں دیا۔ الطاف احمد شاہ اپنے سسر سید علی گیلانی کی طرح ہی زمانہ طالب علمی سے ہی سیاست سے وابستہ رہے ہیں۔ پرانے سرینگر شہر کے خانقاہ معلی محلہ کے مقیم ان کے والد محمد یوسف شاہ، شیخ محمد عبداللہ کے دست راست اور معروف تاجر بھی تھے۔ جب شیخ عبداللہ محاذ رائے شماری کی قیادت کررہے تھے، تو ان کے ساتھ جیل بھی گئے ہیں۔ وہ ایک کٹر نیشنل کانفرنس گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ مگر زمانہ طالب علمی میں ہی وہ شیخ عبداللہ کے سحر سے ایسے وقت آزاد ہوگئے تھے، جب نیشنل کانفرنس کے خلاف شہر سرینگر میں ہلکی سی کانا پھوسی بھی موت کو آواز دینا تھا۔الطاف شاہ کے والد محمد یوسف شاہ کی سرینگر کے مرکز لال چوک میں فنٹوش ہوزری کے نام سے ایک دکان تھی جس کی نسبت سے ان کو بھی الطاف فنٹوش کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہ د کان ایک طرح سے محاز رائے شماری بعد میں نیشنل کانفرنس کے لیڈروں کی ایک پنڈ ہوتی تھی۔ غلام محمد بھدروائی، بشیر احمد کچلو، شیخ نذیر وغیر سینر نیشنل کانفرنس کے لیڈران دوپہر بعد ان کی دکان پر چائے کی چسکیاں لیکر گفتگو کرتے تھے۔ (جاری ہے)
بشکریہ روزنامہ 92 نیوز