اللہ نے فرمایا کہ” عدل کرو، یہ خداترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے“۔ وہ جو اللہ کی ذات پر یقین نہیں رکھتے انصاف تو ان کے ہاں بھی ملتا ہے۔بلکہ ان کے ہاں ارزاں ہے۔بدقسمتی کے اللہ و رسول صلعم کی شریعت کے پیروکاروں کے ہاں انصاف کا حصول مشکل بنادیاگیا ہے۔ عدل کی ترازو کے صحیح رہنے سے معاشرے حسین اور پرامن رہتے ہیں۔ جہاں یہ ترازو ٹھیک نہیں رہتی وہاں لوگ بے چین رہتے ہیں اور معاشروں میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ انصاف کا قتل کرنے والے ملکوں میں اداروں اور شخصیات پر یقین متزلزل ہوجاتا ہے۔پاکستان میں انصاف کے حصول کے لئے قارون کے خزانے اور عمر نوح کی بات کی جاتی ہے۔پاکستان نظرےہ اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا۔ ہم نے یہ طے کیا تھا کہ ہمارے قوانین اللہ اور اس کے رسول کے فرامین کے مطابق ہونگے۔کاش ہم قوانین پر عمل کر سکتے۔ہمارے ہاں چیف جسٹس کارنیلئس نے مشکلات کے باوجود عدلیہ کا وقار بلند کیا۔ نظریہ ضرورت ایجاد کرکے جسٹس منیر سے جسٹس حمید ڈوگر تک بہت سے منصفوں نے کھل کر انصاف کا قتل کیا۔ کچھ نے کھل کھیلنے کی بجائے اندرون خانہ پس چلمن بھاشن دینے والوں کی ہدایات پرعمل میں عافیت جانی۔ یوں ”ہدائت کار“ بھی سامنے نہ آسکے اور منصفوں کی مقبولیت میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا۔ ایسا آج ہی نہیں ہورہا بلکہ2007 ءکی عدلیہ بحالی تحریک میں جو شخصیت بظاہرایک آمر جنرل کو ناںکر کے ہیرو بنے تھی سے متعلق بھی آج لوگ شک کا اظہار کرتے ہیں۔مولانا فضل الرحمان کی دانست کو سلام جو اس وقت کہتے تھے اس ناں کے پیچھے بھی کوئی اور طاقت ہے۔ تین اہم شخصیات نے جسٹس افتخار کیخلاف بیان حلفی دئیے تھے جبکہ اہم خفیہ ایجنسی کے سربراہ ہونے کے باوجود جنرل کیانی نے بیان حلفی نہیں دیا تھا۔ اس سے شک کو تقویت ملتی ہے۔ خفیہ اداروںکے کھیل عجیب اور جلد سمجھ نہیں آتے۔ امریکنوں کو آمر زیادہ بھاتے ہیں کہ ان سے کام نکلوانا آسان ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل ضیا غیرمقبول ہوئے تو ان سے گلو خلاصی پانے کے لئے امریکی سفیر آنرڈ رافیل اور امریکی جنرل ہربرٹ ولیم کی قربانی بھی دے دی گئی۔پاکستان میں امریکیوں کی مداخلت کس قدر گہری ہے اس کو سمجھنے کے لئے باخبر لوگوں کی تصنیفات خاص کر جنرل اسلم بیگ کے انٹرویوز غور سے پڑھنے و سننے کی ضرورت ہے۔امریکہ میں تعینات رہنے والی سفیر عابدہ حسین نے اپنی تصنیف میں لکھا ہے کہ وقت کے آرمی چیف آصف نواز جنجوعہ کو کتنے قلیل وقت میں نوازشریف کو وزارت عظمیٰ سے فارغ کرنے کے لئے امریکی حکام نے آمادہ کیا۔ آصف جنجوعہ اللہ کے پاس پہنچ گئے مگر ان کی جگہ لینے والے جنرل نے بھی عدلیہ سے بحالی کے باوجود نوازشریف کو چلتا کیا۔مشرف غیرمقبول ہو چکے تھے،ان سے کام بھی لیا جاچکا تھا۔ مداخلت کے عادی امریکیوں نے یقینی طور پر ”مقامی شراکت داروں “ کے زریعے ہی مشرف کی رخصتی کا منصوبہ بنایا ہوگا۔چنانچہ منی تھیٹر کا کام کرنے والے لاہورئیے شاہ شراحبیل کو جنرل مشرف کے قریب کیا گیا۔ تھیٹر اور دیگر لوازمات جو رنگین مزاج جنرل کوخوش کرتے تھے کا خصوصی اہتمام شراحبیل کرتا رہا۔ اس نے مشرف کی قربت پائی ۔ مشرف کے حکم پر سی ڈی اے نے اربوں روپے مالیت کی زمین اونے پونے داموں منی تھیٹر اور فوڈ آوٹ لیٹس کے لئے راتوں رات شاہ شراحبیل کو اسلام آباد کے ایف سیون مرکز میں الاٹ کی۔ جس پر تیزی سے تعمیر شروع کر دی گئی۔مخصوص اشاروں پر عدالتوں میں ہمیشہ اپیلیں داخل کرنے والے وکیلوں میں سے ایک کے ذریعے نہ صرف عدالت عظمی سے منی تھیٹر کی تعمیر بارے حکم امتناعی حاصل کیا گیا بلکہ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے آئی جی پولیس اسلام آباد افتخاراحمد کو مختصر مدت میں منی تھیٹر کے تعمیر شدہ حصے کوگرانے کا حکم دیا۔ یہ کام آدھے دن میں سرانجام دیکر عدالت کو مطلع کردیاگیا۔ہدائت کارکا منصوبہ کارگر ہوا۔یہ وہ اقدام تھا جس نے مشرف کو طیش دلایا اور انھوں نے جسٹس افتخار کی برطرفی کا فیصلہ کیا۔عدلیہ کی تاریخ پر ماہر قانون حامد خان نے خوبصورت کتاب لکھی ہے۔ جِس میں بہت سے انکشافات ہیں۔ کاش حامد خاں یا کوئی اور باخبر2007 ءکے خفیہ گوشوں کو بھی بے نقاب کر سکے۔اس سال قوم نے بے مثال قربانیاں دیکر اور ملک کے طول وعرض میں بے مثال احتجاجی تحریک کے زریعے ججوں کو بحال کروایا تھا۔ چیف جسٹس کیManhandling (بدسلوکی)پولیس نہیں کسی اور نے کی تھی بارے انکشافاتی خبر جاری کرناایسا جرم تھاجس کاسزاوار میں ہی نہیں میرا پندرہ سالہ بیٹا تک ٹھرا تھا۔ ہم دونوں پر تین ماہ میں دوبار تشدد کیاگیا۔منصف فیصلے دیتے وقت ردِعمل نہیں جانچتے، تعریف و مذمت کی پرواہ کیے بغیر آئین و قانون کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ آج کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے، منصفی کی مسند پر بیٹھی اعلی شخصیت کو تقریبات میں حلف اور قسم اٹھانے کی حاجت کیوں پیش آرہی ہے؟ ہم لوگوں کے پر تو کچھ کہنے سے جلتے ہیں مگر جسٹس فائز عیسیٰ نے فلیٹس کے مقدمے میں اقامہ کی سزا کی بات کرکے نظام عدل پر بہت بڑا سوال پیداکردیا ہے۔ جسٹس دوست محمد، جسٹس فائز عیسیٰ کے بعد چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس یاور علی نے بھی پنڈی بار سے خطاب میں” جج کیلئے یہی درست ہےکہ وہ سنے اور دیکھے مگر خاموش رہے، بولے تو صرف اسکا فیصلہ بولے کہہ کر بہت کچھ کہہ دیا ہے “ ۔ جناب چیف جسٹس نے عدلیہ کی روایت توڑ کر ایک کالم نویس سے فرمایاکہ بلاتفریق سب کا احتساب کرونگا، دھرنا بھی دینا پڑا تو دونگا۔ ہم جناب چیف جسٹس کی نیت پرشک نہیں کر سکتے مگر 444 افراد کے قتل کے ملزم را¶ انوار کی عدالت عظمیٰ آمد نے لوگوں کو بہت مایوس کیا۔ جناب چیف جسٹس کس دھوم کس شان سے بغیر ہتھکڑی کے سینکڑوں افراد کا مبینہ قاتل آپ کی عدالت میں پیش ہوا۔عدالت نے یہ تک نہ پوچھا کہ وہ دو ماہ سے زائد عرصہ اسلام آباد کہاں چھپے رہے؟ ان کے سہولت کار کون تھے اور ان کیخلاف کیا کاروائی عمل میں لائی گئی؟ بعد ازاں را¶ انوار کو تھانے سے گھر منتقل کر دیا گیا،کیا کسی مفرور دہشت گرد کو عدالت سے جسمانی ریمانڈ پر دئے جانے کے بعد ایسا پروٹوکول دیا جا سکتا ہے؟ کالم نویس سے کی گئی بات چیت میں آپ نے کہا کہ میں سب سے زیادہ بے بس اپنے محکمے( عدل ) سے ہوں۔جناب والا آپ کے اقرار سے کیافرمان رسول صلعم ججز پر منطبق نہیں ہوتا کہ قوموں کی تباہی کے ذمہ دار یہ لوگ بھی ہیں جو پسے طبقے کے بے گناہ لوگوں کو تو لٹکا دیتے مگر را¶ انواروں کے لئے ان کامعیار کچھ اور ہے۔جناب والا قریش کی اس عورت کا واقعہ جو چوری کے جرم میں پکڑی گئی تھی آپ کو اچھی طرح معلوم ہے۔وہ نامور خاندان کی عورت تھی۔چوری کے جرم میں اس کے ہاتھ کاٹے جانے تھے۔اسلام میں چور کو سزا اس کا دایاں ہاتھ کاٹنے کی دی جاتی ہے۔ نامی گرامی قریشیوں کو فکر دامن گیر ہو گئی کہ اگر ہمارے قبیلہ کی اس عورت کا ہاتھ کاٹ ڈالا گیا تو یہ ہماری خاندانی شرافت و وجاہت پر ایسا بدنما داغ ہو گا کہ ہم منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں گے۔چنانچہ ان لوگوں نے حضرت اسامہ بن زیدؓ کو جو نگاہ نبی صلعم میں انتہائی محبوب تھے کے زریعے سفارش عرض کر دی ۔یہ سن کر پیشانی نبی کریم صلعم پر جلال کے آثار نمودار ہوگئے اور آپ صلعم نے نہایت ہی غضب ناک لہجہ میں فرمایا کہ ” اے اسامہ ! تو اللہ تعالی کی مقرر کی ہوئی سزا میں سے ایک سزا کے بارے میں سفارش کرتا ہے ؟ “ پھر اس کے بعدآپ صلعم نے کھڑے ہو کر ایک خطبہ دیا،فرمایا کہ ” اے لوگو ! تم سے پہلے کے لوگ اس وجہ سے تباہ ہو گئے کہ جب ان میں کوئی معزز جرم کرتا تھا تو اس کو چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی کمزور آدمی ایساکرتا تو اس پر سزائیں قائم کرتے تھے خدا کی قسم! اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے گی تو یقینا محمد اس کابھی ہاتھ کاٹ دے گا “۔جناب چیف جسٹس ہم نے پاکستان کو قائم رکھنا ہے تو نبی کریم کے حکم کے مطابق طاقتوروں اور نام نہاد معززین کو لٹکانا ہو گا بصورت دیگر بڑی بڑی باتیں تو ہوا میں تحلیل ہو جائیں گی۔
Load/Hide Comments