قوانین پر سختی سے عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لئے رویوں میں تبدیلی ناگزیر ہے، رومینہ خورشید عالم


اسلام آباد(صباح نیوز)وزیر اعظم کی معاون خصوصی اور سر براہ پارلیمانی ٹاسک برائے عالمی ترقیاتی اہداف رومینہ خورشید عالم نے کہا کہ قوانین پر سختی سے عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لئے ضروری ہے کہ رویوں میں تبدیلی لائی جائے جبکہ اقتصادی ماہرین نے زور دیا ہے کہ حکومت نئی نسل پر قرضہ لانے کی بجائے جامع منصوبہ بندی کر کے سماجی تحفظ فراہم کرے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی(ایس ڈی پی آئی) کے زیر اہتمام پائیدار اقتصادی ترقی کے موضوع پر مقامی ہوٹل میں منعقدہ مذاکرے کے دوران کیا۔ مذاکرے سے ایس ڈی پی آئی کے نائب سر براہ ڈاکٹر وقار احمد، ڈاکٹر شفقت منیر احمد، ڈاکٹر ساجد امین جاوید، پرائم انسٹی ٹیوٹ کے سر براہ علی سلمان، سماجی کارکن ڈاکٹر عاصم سجاد،تھنک ٹینک آ ئی ایس ایس کی ڈاکٹر نیلم نگار،پائیڈ کے پروفیسر ڈاکٹر سعود احمد خان ،عالمی بنک کی مشیر برائے تکنیکی امور ڈاکٹرارمینہ ملک نے بھی اظہار خیال کیا۔

مذاکرے سے اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر اعظم کی معاون خصوصی رومینہ خورشید عالم نے کہا کہ قوانین کے نفاذ ، سماجی ذمہ داریوں کی ادائیگی سماجی اصولوں پر عمل پیرا ہو کراقتصادی ترقی کے عمل میں شامل ہوا جا سکتا ہے تاکہ کم ترقی یافتہ سوسائٹی کو ترقی کی طرف جانے کے مواقع مل سکیں۔

انہوں نے کہا کہ اقتصادی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ سرخ فیتے کا خاتمہ کر کے فوری عمل کو یقینی بنایا جا ئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوںکے نقصانات وہ ممالک بر داشت کر رہے ہیں جن کا اس میں کو ئی حصہ نہیں ہے۔یہ ضروری ہے کہ طے شدہ اصولوں کے مطابق عالمی برادری ان نقصانات کا فوری ازالہ کرے اور کاربن کے اخراج کرنے والے ممالک پر سختی سے پابندی عائد کی جائے۔

اس موقع پر ایس ڈی پی آئی کے نائب سر براہ ڈاکٹر وقار احمد نے کہاکہ عصر حاضر کی مشکلات پر قابو پانے سے اقتصادی ترقی ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نئی نسل پر قرضہ لانے کی بجائے جامع منصوبہ بندی کر کے سماجی تحفظ فراہم کرے۔ اقتصادی پالیسی میں عدم ٹھہراو ، محصولات کے نظام میں خرابیاں، ٹیکسوں میں تبدیل ہوتی شرح معیشت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں، اس سے بیرونی سرمایہ کاری کی بھی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ پاکستان جیسی معیشت کے لئے ضروری ہے کہ بیرونی سرمایہ کاری کو تیزی سے راغب کیا جائے۔

اس موقع پر عالمی بنک کی ارمینہ ملک نے کہا کہ ریاست کے زیراہتمام چلنے والے کاروباری ادروں اور ریگولیٹرز کا کردارجامع اور مو ثر صرف پالیسی اور قانون کے ذریعے ہونا چاہئے بالخصوص توانی کے شعبہ بالخصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔

اس موقع پر ایس ڈ ی پی آئی کے ڈاکٹر شفقت منیر احمد نے کہا کہ پسماندہ طبقات کی حالت بہتر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ معاشی منصوبہ بندی میں ان کو پیش نظر رکھتے ہوئے سماج میں عدم مساوات کا خاتمہ کیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ریاست اور شہریوں کے مابین خوشگوار اوربا اعتماد تعلقات ہونے چاہئیں۔

مذاکرے سے نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے ایس ڈی پی آئی کے ڈاکٹر ساجد امین نے کہا کہ پاکستان کو چار بڑی مشکلات کا سامنا ہے جن کی وجہ سے پائیدار ترقی کا عمل نہیں چل رہا، ان میں سیاسی عدم استحکام ، ادائیگیوں میں عدم توازن،غیر پائیدار شرح نمو اور موسمیاتی و قدرتی آفات شامل ہیں۔

اس موقع پر علی سلمان نے کہا کہ صنعت و زراعت کی برابر ترقی کی حکمت علمی مرتب کر کے روزگار کا تناسب بھی یقینی بنایا جائے تاکہ ترقی کا سفر آگے بڑھ سکے۔

اس موقع پر سماجی کارکن ڈاکٹر عاصم سجاد نے کہا کہ وسائل کی منصفانہ تقسیم اوراقرباپروری کے خاتمے اور سیاحت کے نام پر ترقی ہی درحقیقت ترقی کی جانب میںقدم ہے۔اس موقع پر ڈاکٹر نیلم نگار اور پائیڈ کے ڈاکٹرافتخار احمدنے بھی اظہار خیال کیا۔