پروفیسر محمد ابراہیم نے حکومت سے سیلا ب متاثرہ علاقوں میں تعلیمی سرگرمیاں فوری بحال کرنے کا مطالبہ کر دیا


پشاور(صباح نیوز)  نائب امیر و نگران شعبہ تعلیم جماعت اسلامی پاکستان پروفیسر محمدابراہیم خان نے کہا ہے کہ حالیہ طوفانی بارشوں اور سیلابی ریلے نے جہاں کھیتی باڑی ،جنگلات،مال مویشی،مکانات،بلڈنگ،سڑکوں وغیرہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا یا ہے، وہاں معمولاتِ زندگی ،کاروبارِ زندگی اور تعلیمی عمل بھی درہم  برہم ہوا ہے۔کرونا وبا کی وجہ سے تعلیمی اداروں کی  طویل بندش کے بعد اللہ ،اللہ کر کے تعلیمی سرگرمیاں شروع ہوئی تھیں کہ سیلاب  نے تباہی مچا دی اور ان متاثرہ علاقوں میں تعلیم کا عمل ایک بار پھرمعطل ہوگیا۔ایک سروے کی روشنی میں اب تک سیلاب سے پنجاب میں 1180، سندھ میں15 ہزار سے زائد، بلوچستان میں 1677 اور خیبرپختونخوا میں 1024 سکولز سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ مجموعی طور پر سیلاب سے 19 ہزار 723  سرکاری تعلیمی اداروں کو نقصان پہنچا ہے،تاہم نجی تعلیمی اداروں کی تعداد اس سے زیادہ ہے۔ سروے رپورٹوں میں بتایا جا رہا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے ملک بھر میں مجموعی طور پر 50 ہزار سکولز متاثر ہوئے ہیں اور متاثر ہونے والے بچوں کی تعداد قریبا پچاس لاکھ ہے۔

ان خیالات کا اظہار انھوں نے شعبہ تعلیم سے تعلق رکھنے والے ذمہ داران کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کیا۔پروفیسر محمدابراہیم خان نے کہا کہ  حکومت کی غفلت اور ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے سروسامانی کی حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ 2010 میں بھی سیلاب سے بڑی تباہی ہوئی تھی،لیکن 2022 کے سیلاب کی تباہ کاریاں اس سے کئی گناہ زیادہ ہیں۔افسوس کا مقام ہے کہ ہم نے 2010 کے سیلاب  سے سبق حاصل نہیں کیا،ڈیم بنانے اور پلوں کی تعمیر کے لیے کوئی پلاننگ نہیں  کی گئی۔سیلاب  کے روک تھام  کے لیے دیگر اقوام سے تجربات حاصل نہیں کیے،خاموش تماشائی سے بڑھ کر کچھ نہیں کیا۔ قومی ،صوبائی اورضلعی  ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی،محکمہ موسمیات،محکمہ ایری گیشن نے اپنی ذمہ داری سے بھی غفلت برتی ہے۔بروقت متاثرہ علاقوں کو خالی نہیں کروایا،پیشگی موسمی صورت حال سے لوگوں کو آگاہ نہیں کیا،ندی،نالوں کی صفائی نہیں کی،بند کو مضبوط نہیں کیا اور نہ ہی مرمت کا کام کیا۔افسوس ناک پہلو تو یہ ہے کہ ان اداروں کا عملہ  صرف وزیروں،مشیروں اور ایم این ایز اور ایم پی ایز کی زمینوں کی حفاظت پر معمور ہوتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ان متاثرہ علاقوں میں طلبہ و طالبات کی تعلیم کا نقصان  دیگر تمام نقصانات سے کہیں زیادہ ہے۔ کئی ماہ سے وہاں تعلیمی نظام معطل ہے۔ حکومتی سطح پر تعلیمی بحالی کے لیے ابھی تک کوئی لائحہ عمل سامنے نہیں آیا ہے،اس کی وجہ سے  طلبہ و طالبات کا قیمتی سال ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔تا ہم  جماعت اسلامی کی فلاحی تنظیم الخدمت فاونڈیشن نے اپنے محدود وسائل کے ساتھ خیمہ بستوں میں  اسکول شروع کیا ہے،لیکن یہ کام حکومت کا ہے کہ فی الفور اس کے لیے انتظامات کریں۔ شعبہ تعلیم کو پہنچنے والے نقصانات کا ابتدائی تخمینہ 12.5ملین ڈالر لگایا جا رہا ہے۔

انھوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ  متاثرین سیلاب  کی مدد کے لیے کسی بیرونی امداد کا انتظار مت کریں،حکومت اپنے انتظامی اخراجات میں پچاس فی صد کمی لائے،اخلاص اور ایمانداری کے ساتھ  متاثرین کی مدد کریں ۔امداد ،آبادکاری کے ساتھ ساتھ طلبہ و طالبات  کے تعلیمی سال کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے فوری اقدامات کریں،دیگر علاقوں کے تعلیمی اداروں میں داخلے کے لیے ان علاقوں کے طلبہ و طالبات کے لیے مفت تعلیم کے لیے اقدامات کریں،اور ان  متاثرہ تعلیمی اداروں کی بحالی کے لیے تعلیمی گرانٹ کا فوری اعلان کریں۔