نیویارک(صباح نیوز) ایک اور پاکستان نژاد امریکی وفد کا دورہ اسرائیل،دس روزہ دورے میں اسرائیلی صدر سے ملاقات بھی طے ہے ، پاکستانی وفد میں ایک سابق وزیر بھی شامل ہیں۔ سیاسی و دینی حلقوں کا شدید ردعمل تحقیقات کا مطالبہ ۔ معاملہ پارلیمینٹ کے دونوں ایوانوں میں اٹھے گا ۔
خبروں کی اہم ویب سائٹ انڈپینڈنٹ اردوکے مطابق پاکستان سے تعلق رکھنے والے امریکی شہریوں پر مشتمل ایک وفد تین دنوں سے اسرائیل کے دورے پر ہے۔ وفد کی گروپ کی صورت میں سوشل میڈیا پہ تصویر جاری ہونے سے اس موضوع پر دوبارہ گفتگو کا آغاز ہوگیا ہے۔ یاد رہے کہ مبینہ طور پرچند ماہ قبل بھی ایک امریکی نژاد پاکستانی وفد نے اسرائیل کا دورہ کیا تھا تاہم پاکستان اور اسرائیل کے درمیان کوئی سفارتی تعلقات موجود نہیں اور نہ ہی پاکستان نے آج تک اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ پاکستانی پاسپورٹ پر کوئی شہری اسرائیل کا سفر بھی نہیں کر سکتا۔ پاکستان کا موقف ہے مسئلہ فلسطین پر اقوام متحدہ کی دو قراردادوں پر عمل ہونا چاہیے جو کہ دو ریاستوں کا ذکر کرتی ہیں ۔
اس خبررساں ادارے کے مطابق سیاسی جماعتوں بالخصوص دینی جماعتوں نے ان معاملات کی ایک تحقیقات کا سخت مطالبہ کیا ہے۔ جماعت اسلامی کے رہنما ایم این اے مولانا عبدالاکبرچترالی نے شدید ردعمل میں کہا کہ ان گروپوں کی پشت پناہی کرنے والوں کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔ بار بار ہمارے جذبات کو مجروح کیا جا رہا ہے ۔جماعت اسلامی کی طرف سے یہ معاملہ دونوں ایوانوں سینیٹ قومی اسمبلی میں اٹھے گا ۔
انڈپینڈنٹ اردو نے جب دورے کرنے والے وفد کی تصویر سوشل میڈیا پر جاری کرنے والی انیلا علی نامی خاتوں سے رابطہ کیا تو انہوں نے نہ صرف دورے کی تصدیق کی بلکہ پاکستانی سابق وزیر مملکت و سابق چیرمین پی سی بی ڈاکٹر نسیم اشرف کی شمولیت کا بھی بتایا۔ڈاکٹر نسیم اشرف، پرویز مشرفء کے دور اقتدار میں چیئرمین پی سی بی کے عہدے پر بھی تعینات رہنے کے علاوہ چھ سال وزیر مملکت برائے انسانی ترقی بھی رہ چکے ہیں۔
انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ دو تنظیموں کی طرف سے منعقد کردہ نجی دورہ ہے جس کا مقصد خطے میں امن قائم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ واضح کر دوں کہ یہ دورہ کسی حکومتی سرپرستی سے نہیں ہے تاکہ کوئی ابہام نہ رہے۔ بدھ کو گروپ کی اسرائیلی دفتر خارجہ کے ساتھ ملاقات ہوئی جس میں مسلم ممالک کے ساتھ خطے میں تعلقات اور امن کے حوالے سے تفصیل سے بات چیت کی گئی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ گروپ میں ایک پاکستانی صحافی دبئی سے جبکہ دو پاکستانی امریکی صحافی امریکہ سے شریک ہیں۔ تفصیلات کے مطابق دورے کے لیے پاکستان میں مقیم صحافیوں سے بھی رابطہ کیا گیا تھا۔
ایک صحافی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پہ بتایا کہ انہیں اس دورے میں شرکت کے لیے دعوت دی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ اسرائیل لے جانے کے سارے دستاویزی انتظامات بھی کیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ معاملہ اسرائیل جانے کا تھا اور پاکستان نے فلسطین کے تناظر میں اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہوا تو وہ مناسب نہیں سمجھتے تھے کہ بطور پاکستانی انہیں اسرائیل جانا چاہیے۔ اس لیے انہوں نے میزبان گروپ سے معذرت کر لی۔ یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ جن افراد کو دورے کے لیے مدعو کیا گیا یا جو اس دورے پر گئے ان میں سے بیشتر اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔
انیلا علی نے نو رکنی گروپ میں شامل مزید نام بتانے سے احتراز کیا کہ مناسب وقت پہ بتائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ دورہ دس روز پر محیط ہے۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ دعوت نامے کے باوجود مٹھی بھر پاکستانی ہی اس دورے کے لیے آمادہ ہوئے۔ دس روزہ دورے میں اسرائیلی صدر، سفارتی افسران و ماہرین اس کے علاوہ مختلف رہنمائوں سے بھی ملاقاتیں طے ہیں۔ متعلقہ ویب سائٹ کی طرف سے اس معاملے پر ترجمان دفتر خارجہ عاصم افتخار سے رابطہ کیا اور ان سے پوچھا کہ کیا دفتر خارجہ ان دوروں سے آگاہ ہے؟ تاہم ان کی طرف سے جواب نہیں دیا گیا۔
دوسری جانب انیلا علی نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر واضح کیا ہے کہ یہ نجی دورہ ہے اور پاکستانی نژاد امریکی جہاں سفر کرنا چاہیں کر سکتے ہیں۔ چار ماہ میں پاکستانی نژاد امریکی گروپ کا یہ اسرائیل کا دوسرا دورہ ہے۔ اس معاملے پر سابق سفیر عبدالباسط نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے معاملے پر عوامی جذبات اور فلسطین و کشمیر کے معاملے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ٹریک ٹو اس صورت میں کامیاب ہوں گے اگر ٹریک ٹو ڈپلومیسی گروپ اسرائیل کو فلسطین کے مسئلے کے حل کے لیے قائل کرے۔
اس کے علاوہ اسرائیل مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بھارت پہ زور دے۔ سابق سیکرٹری دفتر خارجہ تسنیم اسلم نے کہا کہ اسرائیل کے حوالے سے میڈیا رپورٹس ہی دیکھی ہیں لیکن یہ علم نہیں کہ ایسا واقعی ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی راہ ہموار ہو رہی ہے تو یہ قائداعظم محمد علی جناح کی جانب سے بنائے گئے خارجہ پالیسی اصولوں سے انحراف ہو گا اور ایسا ہونے کی صورت میں پاکستانی عوام سے بھی اس معاملے کو منظوری کی مہر نہیں ملے گی۔