اسلام آباد(صباح نیوز)اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے عوام کو اداروں کے خلاف اکسانے پردرج بغاوت کے مقدمہ میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر شہباز شبیر گل کی ضمانت بعد ازگرفتاری منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔
عدالت نے شہباز گل کو پانچ لاکھ روپے کے مچلکے جمع کروانے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ شواہد کے بغیر کسی کو جیل میں رکھنا مناسب نہیں ہے اگر ملزم کل کو معصوم اور بے گناہ ثابت ہوتا ہے تواس کا ازالہ کون کرے گا۔
اگر سوشل میڈیا پر جائیں گے تو آدھا پاکستان جیل کے اندر ہو گا، اندر ہونے یا پابندی سے کچھ نہیں ہوگا، جب تک بہتری کی کوشش نہ کی جائے۔ قانون کے مطابق بتائیں کہ کیسے یہ الزام بنتا ہے۔ بغاوت پر نہ آئیں یہاں پر جس کی جومرضی آئے دوسرے کو غدار کہتا ہے۔ اداروں کے خلاف اکسانے پردرج بغاوت کے مقدمہ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آرمڈ فورسز اتنی کمزور نہیں کہ ایسے بیانات سے ان کے مورال ڈاؤن ہوں، بغاوت کی دفعات کو مذاق بنا کررکھ دیا گیا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ شہباز گل ایک سیاسی جماعت کے ترجمان ہیں، اسی حکومت کے دور میں اسلام آباد میں بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ ملزم کے وکیل سلمان صفدر ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ بغاوت کا مقدمہ بنانا آسانا اوراس کو ثابت کرنا انتہائی مشکل ہے، شہباز گل 36دن سے زیر حراست ہیں اور وہ اپنے کیس کی پہلے ہی سزاکاٹ چکے ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ عدالت پی ٹی ایم کیس میں تفصیلی فیصلہ دے چکی ہے ۔ملزم کے وکیل کا کہنا تھا کہ شہباز گل کی خوش قسمتی ہے کہ عدالت نے شہباز گل کی مکمل تقریر پڑھنے کا موقع دیا، غیر ضروری احکامات نہ ماننے پر سپریم کورٹ کے فیصلے موجود ہیں، قائد اعظم محمد علی جناح نے اپنی تقریر میں واضح کہا کہ غیر قانونی احکامات نہ مانے جائیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ شہباز گل کا بیان غیر مناسب تھا اس کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا، شہباز گل کا بیان ہتک آمیز بھی تھا اور لوگوں کی عزتیں نہیں اچھالنی چاہئیں تھیں۔
چیف جسٹس نے شہباز گل کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ یہ بتائیں کہ شہباز گل پر لگائی گئی دفعات کیسے غلط ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا سیاسی جماعت کے ترجمان کو معلوم نہیں تھا کہ آرمڈ فورسز نے سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا حلف اٹھا رکھا ہے، شہباز گل کا بیان غیر ذمہ دارانہ تھا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا تفتیش میں سامنے آیا کہ شہباز گل نے کسی افسر سے رابطہ کیا ہے، کیا کوئی رابطہ ہوا ہے جس میں شہباز گل نے بغاوت پر اکسانے کی کوشش کی، کیا آپ کو لگتا ہے کہ ایسے غیر ذمہ دارانہ بیان آرمڈ فورسز پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ ایسے کوئی ثبوت نہیں کہ شہباز گل نے کسی سپاہی سے بغاوت کرنے کے لئے رابطہ کیا ہو۔ پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے مئوقف اپنایا کہ اگر اسی طرح معافی قبول کی جائے تو قتل کرنے والا بھی ٹرائل کورٹ سے معافی مانگ لے گا۔
چیف جسٹس نے پولیس پراسیکیوٹر سے کہا کہ آپ بغاوت پر دلائل نہ دیں عدالت بغاوت کو نہیں مانتی ، اسے چھوڑ کر باقی دفعات پردلائل دیں۔ راجہ رضوان عباسی نے استدعا کی کہ شہباز گل کی درخواست ضمانت مسترد کی جائے۔ تقریر سے اشتعال دلانا بغاوت پر اکسانے کے مترادف ہے ، اصل میں بغاوت کا ہو جانا ضروری نہیں۔
راجہ رضون عباسی نے کہا کہ شہباز گل نے ایک نہیں بلکہ سب کو بغاوت پر اکسایا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا کبھی آرمڈ فورسز کی طرف سے شکایت درج کروائی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے پولیس کی جانب سے درج ایک کے علاوہ تمام دفعات ختم کی ہیں۔ کیا آپ نے کبھی ٹرائل کورٹ کے اس آرڈر کو چیلنج کیا ہے۔
چیف جسٹس نے راجہ رضوان عباسی سے استفسار کیا کہ کیاانہوں نے 173کی رپورٹ جمع کروادی ہے۔ عدالت نے فریقین کے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد شہباز گل کی درخواست ضمانت بعد ازگرفتاری منظور کر لی اور انہیں پانچ لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔