کراچی (صباح نیوز)دس سال گزرنے کے بعد بھی سانحہ بلدیہ ٹائون فیکٹری کے 259شہداء کے لواحقین و اہل خانہ کوانصاف نہیں مل سکا،لواحقین اپنے حق اور معاوضے کے لیے آج بھی پریشان ہیں،259زندہ انسانوں کو جلانے والوں کو تحفظ دینے اور سرپرستی کرنے والے حکومت کے اتحادی ہیں،تمام حکومتی جماعتوںنے سانحہ بلدیہ کے لواحقین سے وعدے تو بہت کیے مگر عملاََکچھ نہیں کیا،جماعت اسلامی پہلے دن سے ان کے ساتھ ہے اور آئندہ بھی ان کو تنہا نہیں چھوڑے گی۔
ان خیالات کا اظہار امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے سانحہ بلدیہ ٹاؤن کے دس سال مکمل ہونے پر اپنے ایک بیان میں کیا۔ انہوں نے کہاکہ ظلم اور سفاکیت کی انتہا کردی گئی جب زندہ انسانوں کو فیکٹری بند کرکے جلادیا گیا اور سفاکانہ عمل میں ملوث قاتلوں کو سیاسی اور حکومتی چھتری تلے تحفظ دیا جاتا رہا، اس کے ماسٹر مائنڈ اور حکم دینے والوں کو آج بھی کھلی آزادی ملی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہاکہ سانحہ بلدیہ فیکٹری کے مجرموں کے خلاف انسداد دہشت گردی کی عدالت کا فیصلہ زندہ جلنے والے 259افراد کے لواحقین اور متاثرین کی امیدوں اور توقعات کے مطابق نہیں کیا گیا۔ لواحقین اور متاثرین کو امید تھی کہ فیصلے میں اتنے بڑے سانحے کے منصوبہ سازوں اور ماسٹر مائنڈ کو بھی سزا دی جائے گی۔
حافظ نعیم الرحمن نے چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کرتے ہوئے کہاہے کہ وہ سانحہ بلدیہ فیکٹری کے مقدمے کے متاثرین کو مکمل انصاف دلائیں۔ لواحقین اور متاثرین کے ساتھ بڑا ظلم روا رکھا گیا ہے۔ جرمن کمپنی کی جانب سے متاثرین کے لیے دیے گئے 52کروڑ روپے بھی تاحال ان کو نہیں ملے، اس پر سندھ حکومت نے قبضہ کیا ہوا ہے اور حق داروں کو ان کے حق سے محروم رکھا گیا ہے۔
حافظ نعیم الرحمن نے مطالبہ کیا ہے کہ یہ رقم تمام متاثرین میں زرتلافی یکمشت ادا کی جائے اور ان کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے جو اعلانات کیے تھے وہ بھی ان کو فی الفور ملنے چاہیے۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ سانحہ بلدیہ کیس میں ملوث افراد مختلف پارٹیوں اور حکومتوں میں موجود ہیں اور جن 2 افراد کو موت کی سزا دی گئی ہے وہ تو سامنے کے کردار تھے مگر جن کے کہنے پر ان ظالموں نے یہ کام کیا ان منصوبہ سازوں اور ماسٹر مائنڈ کرداروں کو تحفظ فراہم کیا جا تا رہا اور آج بھی وہ قانون کی گرفت سے آزاد ہیں۔
حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ سانحہ بلدیہ ایک دلخراش واقعہ ہے جس پر ہم سب دکھی ہیں عدلیہ کے فیصلے سے بھی انصاف کے حصول میں غیر معمولی تاخیر کا پہلو نمایاں ہوا ہے۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے نظام ِانصاف کی بھی اصلاح ہو نی چاہیے اور لوگوں کو جلد انصاف ملنا چاہیے۔ ملک میں قصاص اور دیت کا قانون موجود ہے اس کے مطابق فیصلے ہونے چاہئیں۔