دہشت گرد پھر بھی مسلمان ؟۔۔۔شکیل احمد ترابی


سب سے بڑا حکیم و دانا کہتا ہے کہ

”پس اے آنکھ والو (اے اصحاب بصیرت) عبرت پکڑو“(سورئہ حشر)

عجب دوڑ لگی ہے، ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی،کمزورکو نیچا دکھانے کی،دوسرے سے زیادہ مال جمع کرنے کی اور اپنی دھاک بٹھانے کی۔ معاملہ انفرادی ہو،کسی ملک کے اندر اداروں کے مابین یا ایک کادوسرے ملک کے ساتھ،سب اسی دوڑ میں لگے ہیں۔مسلم امت بےچارگی کی عجیب کیفیت کا شکار ہے۔بدھ مت کے پجاریوں کے ہاتھوں برمی مسلمان کی جان، مال،عزت و آبروکچھ بھی تو محفوظ نہیں۔عورت کے بارے میںکہا جاتا ہے کہ اس میں رحم کا مادہ زیادہ ہوتا۔پھر آنگ سُوچی عورت ہے یا ڈائن،جسے امن کے اعزازات سے نوازا گیا،مگر جس کے مظالم نے چنگیز و ہلاکو کے مظالم کو مات دے دی۔عیسائیوں کی افواج نے افغانستان،عراق،شام اور لیبیا کو تباہ کر دیا۔لاکھوں مسلمان شہید کر دیئے گئے، املاک و تجارت تباہ کر دیں۔ لاکھوں لوگ مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبورکر دیئے گے۔ان مہاجروں کی اکثریت نہ صرف بھیک مانگنے پر مجبور ہے بلکہ اکثریت غیرانسانی سلوک کا شکار ہے۔
پیغمبروںکی سرزمیں فلسطین کے مسلمان اہل یہودکے ظلم کا شکار،سالہاسال سے جن کاکوئی پرسان حال نہیں۔اپنی ہی زمین جن پر تنگ کر دی گئی۔ مسجد اقصیٰ کے در و دیوار جن پر بند۔کشمیر کا مسلمان مکار ہندو بنئے کے مظالم کا نشانہ۔ہزارہا لوگوں کو محض اس لئے تہہ تیغ کیا جا رہا ہے کہ وہ آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس آزادی کا جس کا وعدہ اقوام عالم نے استصواب رائے کی صورت کشمیریوں سے کیا تھا۔ جدھر نظر اٹھتی ہے ادھر مسلمان مظلومیت کی تصویر بنا نظر آتاہے اور یہ کیفیت آج کی نہیں، سالہا سال سے مسلمان مشق ستم بنے نظر آتے ہیں۔ تقریباً چار عشرے قبل مسلمانوں کے درد سے اٹھنے والی آہ و بکا سن کر ہی تو سید مودودی رحمتہ اللہ علیہ کے معاون خصوصی جناب نعیم صدیقی نے کہا تھا کہ

بستی بستی، وادی وادی، صحرا صحرا خون
امت والے، امت کا ہے کتنا سستا خون
خیر و شر کی جنگاہوں میں دکھلائے اعجاز
عشقِ محمد کا گرمایا مہکا مہکا خون
ایک نظر سرکارِ معلی کابل تا لبنان
محروموں کا مظلوموں کا معصوموں کا خون
افغانی، لبنانی مقتل ،سب کا سب ہے ایک
یاں بھی خون ہے میرا اپنا ، واں بھی میرا خون
انسانیت کی ہیں قدریں ، ہر جانب پامال
اتنے زخمی، اتنی لاشیں، اتنا بہتا خون
تیرے عاشق خاک وخوں میں لوٹیں اور ہم چپ
کھول رہا ہوں اپنوں کا ہے کتنا ٹھنڈا خون
حاصل اس کیفیت کا ہیں میرے یہ اشعار
دل سے رِس کہ قطرہ قطرہ شب بھر ٹپکا خون
دنیا والو! کہاں گیا تمہارا عدل وانصاف؟تیغ بھی مسلمان کی گردن پر چل رہی ہے، نقاب بھی مسلمان بیٹی کے چہرے سے نوچے جارہے ہیں اوردہشتگرد پھر بھی مسلمان ہی قرار پایا۔؟نہیں یہ چلن زیادہ دیر نہیں چلے گا۔غورکرتا ہوںکہ مسلمانوں کی یہ حالت کیوں بنا دی گئی ہے تو آمنہ کے لعل،جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم یاد آتے ہیں۔آپ نے فرمایا تھا کہ”ایک وقت ایساآئے گاکہ دنیا کی دوسری قومیں تم پر ایسے ٹوٹ پڑیںگی جیسے بھوکا دسترخوان پر،سوال ہوا،یارسول اللہ کیاہم تعداد میں کم ہونگے؟فرمایا نہیںکثرت میں ہونگے،مگر سمندرکی جھاگ کی مانند۔اللہ تمہارے دشمنوںکے اندر سے تمہارارعب نکال دے گااور تمہیں”وھن“کی بیماری میں مبتلا کردیگا۔پوچھا گیا وھن کیاہے؟رسول رحمت نے جواب دیا ”دنیا سے محبت اور موت سے کراہیت۔“
یہ دنیا کی محبت ہی تو ہے جس کی وجہ سے ہر ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دوڑ میں حلال و حرام کی تمیز کھو بیٹھا ہے۔ بڑی آبادی اور بہترین وسائل سے مالامال ہونے کے باوجود امت مسلمہ اس بیماری کا شکار ہوکر دنیا بھر میں تماشہ بن کے رہ گئی ہے۔ عالمی طاقتوں نے ہمیں اپنا باجگزار بنا کر رکھ دیا ہے۔ وطن عزیز پاکستان دشمن کی سازشوں کا ہمیشہ شکار رہا ہے، مگر آج محسوس ایسے ہوتا ہے کہ جیسے ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں، اپنی تباہی کے لئے ہم خود کفیل ہوچکے۔ دشمن کی ریشہ دوانیوں کے ماحول میں اداروں کا باہمی ٹکرا¶ ہمیں نہ جانے کہاں پہنچا دے گا۔ ہم آپس میں دست و گریباں اور امریکہ بہادر نے ہماری ساری قربانیوں پر پانی پھیرتے ہوئے ریاست پاکستان کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ قرار دے دیا۔ درست کہا پاک فوج کے سابق سربراہ جناب اسلم بیگ نے کہ آج ہم یہ دن جنرل پرویز مشرف کی غلط پالیسیوں کی بنا پر دیکھ رہے ہیں جنھوں نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لئے ملک کو امریکہ کی غلامی میں دے دیا۔کیا ہم تجزیے کی صلاحیت سے عاری ہوتے جا رہے ہیں جو سمجھتے ہیں کے ٹرمپ کے برسراقتدار آنے سے ہم آزمائش کا شکار ہو گے۔ ٹرمپ کو نہ جانے کیا کیا نام دیئے جارہے ہیں‘ کوئی انھیںکم عقل سمجھتا ہے تو کوئی ظالم و جابر حکمران۔ ہماری یادداشت شاید کمزور ہے اور اکثریت بھول جاتی ہے کہ کلنٹن، بش اور اوبامہ بھی ماضی قریب میں امریکہ ہی کے حکمران تھے، مسلمانوں خاص کر مسلم ممالک کے بارے میں سب کی پالیسی یکساں ہے۔ خدا ترسی کی رمق کسی میں بھی موجود نہیں۔ ہمارے ہاں نادیدہ قوتیں اکثر ملک کے اندر ایسی ”اوچھی کارروائی“ ڈال دیتی ہیں جس سے ان کے خلاف شور بپا رہتا ہے۔ وگرنہ ”کارروائی“ تو امریکہ کی نادیدہ قوتیں ہم سے زیادہ ڈالتی ہیں۔ وقت کی ضرورت کے عین مطابق امریکی نادیدہ قوتوں کی منصوبہ بندی سے ٹرمپ برسراقتدار آئے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس حکمران کی اپنی اوپر کی منزل میں موجود ”بھیجا“ صحیح کام کرتا ہو وہ سب نادیدہ قوتوں کی نہیں سنتا مگر یہ کہنا کہ وہاں کے حکمران ہی اصل پالیسیاں بناتے ہیں محض ہماری خام خیالی ہوگی۔ یقینا 70 اور 80 کے عشروں میں ہمارے بھی کچھ مفادات تھے جن کی خاطر ہم نے اپنی ہمت سے بڑھ کر سوویت یونین کے خلاف امریکہ کا ساتھ دیا۔ مگر مطلب پورا ہونے پر امریکیوں نے ہم سے آنکھیں چرالیں۔ اللہ کے فرمان”پس اے آنکھ والو(اے اصحاب بصیرت) عبرت پکڑو“ کو پس پشت ڈال کر ہم نے دنیا کی بہترین روایات کو زمین بوس کرتے ہوئے سفیر تک امریکہ کو پکڑ کر دیدیئے۔ ایسے جرم پر یہ اللہ کی پکڑ ہی توہے کہ جس کی خاطر ہم نے اپنا آپ تباہ کردیا‘وہ ہمیں ڈالروں کے طعنے دیتاہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہوابلکہ ایک بار پہلے بھی غالباً ان کے اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ پاکستانی پیسے کی خاطر اپنی ماں بھی بیچ دیتے ہیں۔ بہت گالیاں کھا لیں جناب، کچھ ڈیفنس ہا¶سنگ سوسائٹیز و سڑکوں پلوں کے منصوبے جو امریکی اجرت سے حاصل ہونے والے مال سے ہم بناتے تھے روک دیجئے۔ سی پیک منصوبے کی تکمیل کے بعد اللہ ہمیں بہت نوازیں گے۔ آخر میںگزارش کہ آپس کی طعنہ زنی ختم کیجئے، جناب شاہد خاقان عباسی اپنا گھر ضرور ٹھیک کریںمگر دنیا میں تماشہ بننے کی بجائے گھرکے سب فریق مل بیٹھ کر،کھل کر بات کریں اور گھر کی مکمل صفائی شروع کریں۔ سول بیورو کریسی و سیاستدانوں کی کھربوں کی لوٹ مار واپس قومی خزانے میں جمع کرا کے عساکر کو کہیں کہ وہ بھی اپنی صفیں درست کر لیں، اسی میں سب کا بھلا ہے۔