کشمیر ، ٹھوس پالیسی کی تشکیل کی ضروررتشکیل احمد ترابی


پانچ فروری کی آمد آمد ہے۔ جس دن کی 1990 سے قبل کوئی اہمیت نہ تھی۔ کشمیر کی تاریخ میں تو5 جنوری کی ایک تاریخی اہمیت ہے، کیونکہ 5جنوری 1949کو اقوام متحدہ نے قرارداد منظور کی تھی جس میں کشمیری عوام کے بنیادی انسانی حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں حق خودارادیت دلانے کا وعدہ کیا گیا گیا تھا -جس کے بعد آج تک کشمیری عوام دنیا بھر میں اس دن کو “یوم حق خودارادیت” کے طور پر مناتے ہیں۔ 1989ء کے اواخر میں بھارت کے زیرِقبضہ کشمیر سے نوجوانوں کی بڑی تعداد نے آزاد کشمیر آنا شروع کردیا۔ روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں نوجوان آزاد کشمیر داخل ہو رہے تھے اور مختصر عرصے میں یہ تعداد ہزاروں کو چھونے لگی۔ آزاد کشمیر حکومت کے پاس اس قدر وسائل نہ تھے کہ وہ ان نوجوانوں کےلئے رہائش وخوارک کا بندوبست کرسکتی۔ وفاق میں اِس معاملے پر مکمل سکوت تھا۔چنانچہ پژمردہ دِلوں کو امنگ اور جِلا بخشنے والے عظیم راہنما قاضی حسین احمد رحمتہ اللہ علیہ نے 5جنوری1990 کو ایک پر ہجوم پریس کانفرنس میں مقبوضہ کشمیر سے آنے والے ہزاروں نوجوانوں کی آمد اور ان کو کُسمپرسی کی صورت حال سے نکالنے کے لئے 5 فروری کو آزاد کشمیر’پاکستان اور دنیا بھر میں بسنے والے پاکستانیوں سے “یوم یکجہتی کشمیر” منانے کی اپیل کردی۔ پنجاب میں اسلامی جمہوری اتحاد سے وابستہ وزیر اعلی میاں محمد نواز شریف نے بھی قاضی حسین احمد کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس دن کو سرکاری طور پر منانے کا اعلان کر دیا۔وفاقی حکومت جہاں چند دن قبل تک کشمیر بارے خاموشی نے مکمل ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ پنجاب کے وزیر اعلی کی تائید کے بعد کشمیر کے لئے ہزارسال تک لڑنے کی بات کرنے والے بھٹو کی بیٹی محترمہ بےنظیر وزیراعظم پاکستان نے بھی خاموشی توڑی اور5 فروری کو ملک بھر میں تعطیل اور کشمیریوں سے اظہارِیکجہتی کے طور منانے کا اعلان کردیا۔یوں بے اہمیت 5 فروری کی ان ستائیس سالوں میں بے پناہ اہمیت بن گئی۔ مگر یہ بھی حقیقت کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس دن یک جہتی کم کم اور چھٹی زیادہ منائی جانے لگی۔حکومت پاکستان سمیت سب جماعتوں کو مل بیٹھ کر ایک بار پھر اس دن کو حقیقی یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منانے کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ہرکشمیری و پاکستانی کو چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں بستا ہو اس بار لازمی طے کرنا چاہیے کہ وہ کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لئے باہر نکل کر ان کے لئے آواز بلند بھی کرے گااور ہر آدمی کم ازکم دس روپے کشمیر فنڈ میں جمع کرائے گا۔ یہ دس روپے کئی ارب روپے بن کر تحریک آزادکشمیر کے لئے ایندھن فراہم کر سکتے ہیں۔اس وقت کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی تبدیلی کی بات پورے زور شور سے کی جارہی ہے۔ چیئرمین کی تبدیلی کے پیچھے ”ُحب علی کم ُبغضِ معاویہ “زیادہ ہے، علماکرام سے متنفِر لابی اس مہم میں پیش پیش ہے۔ چیئرمین کشمیر کمیٹی ہی تحریک آزاد کشمیر کی راہ میں اگر رکاوٹ ہیں تو یہ شوق بھی پورا کر لیں جناب والا۔مگر حقیقت یہ ہے کہ حکومت پاکستان کو کشمیر کے معاملے پر دفاعی نہیں جارحانہ پالیسی تشکیل دینا ہوگی۔پروین شاکر نے بھارت سے متعلق تو نہیں کہا تھا مگر حقیقت یہی ہے کہ
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاﺅں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا
ہمیں جائزہ لیناہو گا کہ جھوٹ بول کے بھی بھارت دنیا کوکیسے رام کرلیتا ہے اور ہم سچ کے علمبردار ہوتے ہوئے بھی کامیاب کیوں نہیں؟کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمیں اچھے وکیل میسر نہیں جو دنیا بھر میں مقدمہِ کشمیر صحیح طور پیش کر سکیں۔کچھ عرصہ قبل اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے سیکرٹری کا یہ کہنا کہ ”ہم لائن آف کنٹرول پر لا ءاینڈ آرڈر کی صورتحال پر نظر رکھنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے“ افسوسناک بیان تھا۔اقوام متحدہ کا کردار ایل او سی یا انڈیا پاکستان کے درمیان ثالثی تک محدود نہیں۔حکومت پاکستان کے اقوام متحدہ میں موجود مندوب اور دفتر خارجہ کو اس پر سخت ردعمل کا اظہار کرنا چاہیے تھا۔مگر ہم نے مجرمانہ خاموشی اختیار کئے رکھی۔حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ بین الاقوامی برادری کو باور کرائے کہ کشمیر دو ممالک کا اندرونی معاملہ نہیں بلکہ بین الاقوامی قضیہ ہے جو حل نہ ہوا تو دو پڑوسی نیوکلیائی ریاستوں میں تباہ کن جنگ ہو سکتی ہے۔ حکومت پاکستان خود یا حکومت آزاد کشمیریاآزادکشمیر کے کِسی ماہر قانون کے ذریعے اقوام متحدہ کے قوانین اور Rome Statuteکے مطابق بین الاقوامی فوجداری عدالت(International Criminal Court)میں کشمیریوں کی نسل کشی(Genocide)سے متعلق بھارت کے خلاف مقدمہ دائر کرائے۔ حکومت اگر ایسا نہیں کرتی تو پاکستان کی ان دینی و سیاسی جماعتوں جو کشمیر کے لئے مخلصانہ کوششیں کر رہی ہیں کو آگے بڑھ کر بین ا لاقوامی قوانین کے ماہر کے ذریعے مقدمہ درج کرانا چائیے۔ احمد بلال صوفی ایڈووکیٹ اس معاملے میں معتبرشخصیت ہیں۔مظفر برہان وانی کی شہادت کو دوسو دن مکمل ہو چکے ہیں۔ انکی شہادت کے بعد ابھرنےوالی تحریک کو دبانے کے لئے کشمیری عوام باالخصوص نوجوانوں کوPellet Gunکے ذریعے بھارتی افواج کی جانب سے نابینا بنائے جانے کے انتہائی قبیح اورمجرمانہ اقدام کوحکومت پاکستان کو بین الاقوامی جنگی عدالت میں لے جانا چائیے۔ نابینا بنائے جانے کے ظالمانہ اقدام کو جنگی عدالت کے علاوہ حکومت پاکستان ہیگ میں قائم بین الاقوامی عدالت انصاف (International Court of Justice)میںبھی مقدمہ قائم کرے۔عشروں سے سفارت خانوں میں کشمیر ڈیسک قائم کرنے کے مطالبات کیے جاتے رہے مگر اس پر کوئی قابل ذکر اقدام نہ کیا جا سکا۔اگر کشمیر ڈیسک قائم نہیں کئے جا سکتے توکچھ لوگ سفارتخانوں میں ایسے تعینات کیے جائیں جوقضیہ کشمیر کی جزیات تک سے واقف ہوں ۔دفترِخارجہ میں کشمیر کے قضیئے کے لئے ایک مستعد اور فعال ڈیسک کے قیام کی ضرورت ہے جو چوٹی کے بین الاقوامی لابسٹس (Lobbyists)کی خدمات حاصل کرکے مسئلے کو مختلف فورمز پر اٹھائے۔ماضی میں واشنگٹن،لندن،برسلز میں کشمیر سنٹرزقائم تھے جن کی خامیاں دور کرنے کی بجائے امریکی دباﺅ پر انہیں بند کر دیا گیا ۔تینوں سنٹرز کو نہ صرف بحال بلکہ دنیا کے چند اوراہم ممالک میں نئے سنٹرز کے قیام کی ضرورت ہے۔چین ، ترکی اور دیگر دوست ممالک سے قضیہ کشمیر کوبین الاقوامی سطح پر اجاگر او ر اس مسئلے کے حل کے لیے خصوصی معاونت حاصل کی جائے۔بھارت کے سرکاری اور غیر سرکاری پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا تحریک آزادی کشمیر کے خلاف ہندوستان کی حکومت کی دہشت گردانہ پالیسی کو مکمل طور پر اپناتے ہوئے تحریک آزادی کشمیر کے خلاف اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ حکومت پاکستان کی عدم دلچسپی کی وجہ سے ہمارے سرکاری و غیر سرکاری پرنٹ و الیکٹرانک ذرائع ابلاغ تحریک آزادی کشمیر کو اجاگر کرنے اور اس کی پشت پناہی کے لیے مطلوبہ کردار ادا نہیں کررہے۔اس سلسلہ میں ٹھوس میڈیا پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ پوری پاکستانی قوم خاص کر قومی قیادت کو مختلف بولیاں بولنے کی بجائے کشمیر کے حوالے سے یک زباں ہو کر کشمیریوں کے حق رائے دہی کا مطالبہ باربار دہراتے رہنا چاہیے ۔