کراچی(صباح نیوز)امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن کی جانب سے بجلی کے بلوں میں ناجائز ٹیکسز ،فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر اضافی وصولیوں ولوڈ شیڈنگ کے خلاف اور کے الیکٹرک کو معاہدے کے مطابق بجلی کی پیداواری صلاحیت میں اضافے اور طے شدہ سرمایہ کاری کرنے کا پابند کرنے کے لیے سندھ ہائی کورٹ میں دائر پٹیشن کی سماعت ہوئی ۔
درخواست گزار حافظ نعیم الرحمن اپنے وکلاء سیف الدین ایڈوکیٹ اور عثمان فاروق ایڈوکیٹ کے ہمراہ سماعت میں خود شریک ہوئے اور عدالت سے گزارش کی کہ کے الیکٹرک کو کراچی کے عوام سے ناجائز ٹیکسز اور فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر اضافی وصولیوں سے روکا جائے اور لوڈ شیڈنگ بالخصوص رات میں بجلی کی بندش سے نجات دلائی جائے اور بجلی کی پیداوار بڑھانے کاپابند کیا جائے ۔
جسٹس سید حسن اظہر رضوی کی سربراہی میں دورکنی بینچ میں ہونے والی سماعت میں کے الیکٹرک کی جانب سے ایان مصطفی ایڈوکیٹ نے وکالت نامہ جمع کروایا ۔عدالت نے کے الیکٹرک اور نیپرا سے جواب طلب کیا اور عدالت نے نیپرا حکام کو سیشن جج اسلام آباد کے توسط سے جواب جمع کرانے کے لیے دوبارہ نوٹس جاری کردیا اور سماعت 21ستمبر تک ملتوی کردی ۔حافظ نعیم الرحمن نے عدالت کے روبرو اہل کراچی کا مقدمہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ تمام چارجز ملا کر ڈبل سے بھی زیادہ ہو رہے ہیں۔ خود میں نے جو بل ادا کیا اس میں سب حقیقت واضح ہے ۔ کے الیکٹرک پرانے پلانٹ چلا رہی ہے۔ فیول ایڈجسمنٹ چارجز اپنی جگہ لیکن بجلی پیدا کرنے کی استعداد پر بات ہونی چاہیے۔
کے الیکٹرک نے کہا تھا کہ ہم اپنی بجلی پیدا کریں گے۔ کے الیکٹرک اپنی بجلی کہاں پیدا کر رہا ہے؟ نیپرا کے پاس کوئی میکنزم ہی نہیں۔ برسوں پرانے پلانٹ چلیں گے تو چارجز بڑھیں گے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ نیپرا کمیٹی فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز طے کرتی ہیں۔ کے الیکٹرک اور نیپرا کا جواب آنے دیں۔ زیر سماعت درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ کے الیکٹرک کو اوور بلنگ، فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز وصولی سے روکا جائے۔ سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس، ٹی وی لائسنس فیس دیگر چارجز وصول کرنے سے بھی روکا جائے۔ کے الیکٹرک کے اکاونٹس کا فرانزک آڈٹ کرایا جائے۔
کے الیکٹرک کو غیر قانونی بالخصوص رات کے اوقات بجلی کی بندش سے روکا جائے۔ معاہدے کے مطابق کے الیکٹرک کو اپنی بجلی پیدا کرنے کا حکم دیا جائے۔ بجلی کی پیداوار اور استعداد بڑھانے کے لیے اقدامات کا حکم دیا جائے۔ بعد ازاں ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ کے الیکٹرک نے آج پھر عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ معاہدے کے مطابق 3سال میں بجلی کی پیداوار میں 1300میگاواٹ اضافہ ،361ملین ڈالر کی انویسٹمنٹ ،لائن لاسز کو ختم اورعوام کو ریلیف فراہم کرنا تھا مگر ایسا نہیں کیا گیا،
کے الیکٹرک نے الیکٹرک سٹی ڈیوٹی کے نام پر اربوں روپے وصول کیے جس کا براہ راست تعلق سندھ حکومت سے ہے ،عوام کو بتایا جائے کہ الیکٹرک سٹی کے نام پر وصول کیے گئے چارجز کہاں خرچ کیے گئے ؟،ٹی وی لائسنس کی مد میں 35روپے وصول کیے جارہے ہیں،وہ کہاں خرچ کیے گئے ؟۔انہوں نے کہاکہ فیول ایڈجسمنٹ چارجز ناجائز ہیں۔ یہ اپنے خراب پلانٹ چلاتے ہیں۔ نئے پلانٹ نہیں چلا تے۔ فیول زیادہ استعمال ہوگا تو زیادہ چارجز لگیں گے۔کے الیکٹرک کو کوئی خسارہ نہیں فائدہ ہی فائدہ ہے اور مسلسل منافع مل رہا ہے ، سارے مسائل کراچی کے عوام کو جھیلنے پڑرہے ہیں۔کراچی کے شہریوں پر بل کی صورت میں بم پھینکنے جا رہے ہیں۔
عدالت نے کہا کہ اگر غلط ہو رہا ہے تو بل ایڈجسٹ ہوجائیں گے۔ فاضل عدالت نے دوہفتوںکا وقت دیا ہے ،جماعت اسلامی اور پوری ٹیم کراچی کے عوام کا مقدمہ لڑے گی اور ہمیں امید ہے کہ فاضل ججز کراچی کے عوام کے حق میں قانون کے مطابق عوام کو ریلیف فراہم کریں گے۔حافظ نعیم الرحمن نے کہاکہ ہم کراچی کے شہریوں سے زیادتی ہرگز نہیں ہونے دیں گے ۔ اربوں، کھربوں روپے کے الیکٹرک کے پاس جمع ہیں۔ ٹی وی لائسنس کی رقم کہاں جا رہی ہے۔ ٹی وی لائسنس کی رقم کیوں ادا کی جائے ۔انکم ٹیکس کے چارجز ہم کیوں ادا کریں۔ سارے ٹیکسز بجلی کے بلوں میں لگا دیے گئے ہیں۔ کے الیکٹرک، ابراج کی ملی بھگت سب کے سامنے آچکی۔
کے الیکٹرک ایک مافیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کے الیکٹرک مافیا کے خلاف لڑ رہی ہے۔ سپریم کورٹ میں بھی صرف جماعت اسلامی ہی کے الیکٹرک کے خلاف گئی۔ہر وزیراعظم کے الیکٹرک کا دفاع کرتے ہیں۔ عارف نقوی، کے الیکٹرک مافیا کو سپورٹ کی جاتی ہے۔ شہریوں کو بھی سوچنا چاہیے ان سے ووٹ لینے والوں نے ان کے ساتھ کیا کیا۔ جھولی بھر بھر کے ووٹ لینے والے کے الیکٹرک کے خلاف بات کیوں نہیں کرتے۔ عوام کے مفاد کے لیے دیگر سیاسی جماعتوں مکمل خاموش کیوں ہیں۔ کراچی سے پارلیمنٹ میں جانے والوں نے عوام کے لیے آج تک کیا کیا۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کراچی کے سیکریٹری اطلاعات زاہد عسکری ، پبلک ایڈ کمیٹی کے ،کے الیکٹرک کمپلنٹ سیل کے انچارج عمران شاہد و دیگر بھی موجود تھے ۔