لاپتہ افرادکی بازیابی کیلئے14اگست تک پالیسی نہ بنائی گئی تو ریڈ زون میں دھرنا ہوگا، آمنہ مسعودجنجوعہ


اسلام آباد (صباح نیوز ) پاکستان میں جبری لاپتہ افرادکی بازیابی کی جدوجہد میں مصروف تنظیم ڈیفنس آف ہیومن رائٹس نے کہاہے کہ اگر حکومت نے 14اگست تک لاپتہ افرادکی بازیابی کیلئے کوئی پالیسی نہ بنائی تو ریڈ زون میں اپنے پیاروں کی بازیابی تک احتجاجی دھرنا دیا جائے گا۔

ڈیفنس آف ہیومن رائٹس (ڈی ایچ آر) نے مسعود جنجوعہ کی جبری گمشدگی کے 17سال مکمل ہونے پر ڈی چوک اسلام آباد میں احتجاجی مظاہرہ کیا،مظاہرے میں ملک بھر سے جبری لاپتہ افراد کے لواحقین اور سول سوسائٹی کے نمائندے شریک ہوئے مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے ڈیفنس آف ہیومن رائٹس پاکستان کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ حکومتی ذمہ داران کو جبری گمشدگیوں کے سنگین مسئلے کو حل کرنے کے لئے عملی اقدامات لینے چاہیے۔ اس حوالے سے ڈیفنس آف ہیومن رائٹس پاکستان کی جانب سے کئی بار اسلام آباد کے “ڈی چوک” سمیت کئی جگہوں پردھرنا دیا، اسی مطالبے کے ساتھ ایک دفعہ پھر سے آمنہ مسعود جنجوعہ اور جبری گمشدہ افراد کے لواحقین نے دھرنا کا آغاز کیا ہے۔

ان کا کہنا تھاکہ 2014میں زاہد آمین کو اڈیالہ روڈ پر اپنے گھر سے اٹھایا گیا جبکہ اس کے جوان بھائی کو 2021 میں غائب کردیا گیا۔ اس طرح انجینئر ساجد محمود کو مارچ 2016 میں جبری طورپر لاپتہ کردیا گیا جبکہ عتیق الرحمن جو کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے پی ایس تھے کو بھی جبری لاپتہ کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ فیروز بلوچ، نوید بٹ ، شاہدمنظور قاسم اور فیصل کے خاندان کے افراد بھی سالوں سے اپنے پیاروں کی واپسی کی راہ دیکھ رہے ہیں۔خیبر پختونخوا کے ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والے 140 خاندان بھی روزانہ کی بنیاد پر جبری گمشدگیوں کے خلاف اور پیاروں کی رہائی کے لیے مظاہرے کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں شدید گرمیوں میں صوبائی اسمبلی کے سامنے 40دن کا تاریخی دھرنا دیا مگر اس کے باوجود ان کے لواحقین کو ابھی تک رہا نہیں کیا گیا۔پشاور کی بوڑھی ماں صبیحہ بیگم 20 سال سے اپنے بیٹے کی راہ دیکھ رہی ہے لیکن جبری گمشدگیوں کو دیکھنے والے کمیشن نے ان کو جواب دیا ہے کہ اس کا بیٹا زندہ نہیں ہے۔

آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ قوم کی مائیں کب تک صدمے اور دکھ برداشت کرتی رہے گی، جہاں تک نظر پڑتی ہے یہی روگ ہے۔بلوچ, سندھ, پنجاب اور خیبرپختونخوا میں یکساں کہرام مچا ہوا ہے, گھروں سے ان کے بھائی بیٹے اور شوہر غائب کر دیے گئے ہیں، لیکن کسی کو نہیں پتہ آخر ان کو انصاف کب اور کون دے گا؟ حکومت کو یہ سوچنا ہو گا، کسی بہترین پالیسی کے تحت تمام لاپتہ افراد کو منظرعام پر لاناہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک ہمیں انصاف نہیں ملتا ہم یہاں آتے رہیں گے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ حکومت اپنے وعدے پورے کرے اورلاپتہ افراد کو رہا کریں۔اگر ہمارے پیاروں کا کوئی قصور ہے تو ان کو عدالتوں میں پیش کریں اوراگر وہ بے گناہ ہیں تو ان کو فوری طور پر رہا کرے لیکن اس اذیت کے ساتھ ہمارے لیے زندہ رہنا اب مشکل ہو گیاہے کہ ہمیں یہ بھی نہیں پتہ کہ ہمارے پیارے زندہ بھی ہیں یا نہیں؟

آمنہ مسعود جنجوعہ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ تمام جبری لاپتہ افراد کوفورا بازیاب کرنے کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی فورسز کے زیر نگرانی خفیہ حراستی مراکز کا خاتمہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ضروری ہے کہ سالوں سے مشکلات کا شکارلاپتہ افراد کے متاثرہ خاندانوں کی تلافی کے لیے جامع منصوبہ تیار کیا جائے ، لاپتہ افراد کے بارے میں بین الاقوامی کنونشن پر دستخط کر کے اسکی توثیق کی جائے۔انہوں نے کہاکہ پاکستان میں پاپتہ افراد کے مسئلے کے حل کیلیے آج سے گیارہ سال پہلے “کمیشن آف انکوائری آن انفورسڈ ڈس اپیرنسز” کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ تاہم کمیشن کی تمام تر کارروایی ماہانہ بنیادوں پر ایک فرضی رپورٹ کے اجرا تک محدود ہے۔

رپورٹ میں کمیشن اپنی تعریفوں کے ساتھ اعداد وشمار کے ہیرا پھیری سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک دیتا ہے۔ درحقیقت کمیشن اپنے احکامات پر بھی عملدرآمد نہیں کروا سکا۔ کمیشن نے 600 لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کرنے کا حکم نامہ جاری کیا لیکن یہ کمیشن قانونی اختیار رکھنے کے باوجود ان احکامات پر عمل درآمد کروانے میں ناکام ہے۔آمنہ مسعود جنجوعہ کا کہنا تھا کہ جبری گمشدگی کے خالف انسانی حقوق کی تنظیوں کو اس پروپیگنڈا مشینری کامقابلہ کرنا ہو گا جو لاپتہ افراد کے ورثا کی جدوجہد میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔عوام کی رائے معاشرے کے دانشوروں کے افکار اور طرز عمل سے متاثر ہوتی ہے۔ جبری گمشدگی کے خالف جنگ میں کامیابی بڑے پیمانے پرعوامی حمایت سے ہی ممکن ہے۔ جبری گمشدگیاں انسانی حقوق کی پامالی کی سنگین ترین شکل ہے۔ اسے انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا گیا ہے۔

اس کے خاتمے کیلئے سب کو مل کر کردار ادا کرنا ہو گا۔ جب تک قانون خوف اورمصلحتوں کی زنجیروں سے آزاد نہیں ہوگا یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ عدلیہ کو پوری توانائی سے اپنا کردار ادا کرناچاہیئے ۔ طاقت وروں سے صر ِف نظر کرنے والے معاشرے کھوکھلے ہو جاتے ہیں۔آمنہ مسعود جنجوعہ کا مزید کہنا تھا کہ مسعود جنجوعہ کی گمشدگی کے 17 سال بعد بھی ان کے خاندان اور انسانی حقوق کے محافظین کی طرف سیسچ، انصاف اور آزادی کی جدوجہد جاری ہے نا صرف یہ بلکہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی برادری یکجہتی کے لئے آواز بلند کر رہی ہے۔

ڈیفنس آف ہیومن رائیٹس اور انسانی حقوق کی عالمی برادری نے مسعود جنجوعہ کی فوری رہائی اور انصاف کامطالبہ کیا ہے۔ڈیفنس آف ہیومن رائیٹس پاکستان حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ 17 سال کے اذیت ناک سفر کو ختم کرے اورمسعود جنجوعہ، فیصل فراز اور پاکستان کے تمام لاپتہ افراد کورہا کرے۔ مسعود جنجوعہ کی اہلیہ آمنہ مسعودجنجوعہ کا کہنا ہے کہ: “میں مر سکتی ہوں لیکن اپنے پیارے شوہر مسعود کی تلاش کی جدوجہد ترک نہیں کرسکتی۔احتجاجی مظاہرے سے سینئر صحافی شکیل احمد ترابی، شاہد منظور ، سلطان محمود، اور لاپتہ ڈاکٹر عمر اواب کی اہلیہ نے بھی خطاب کیا ۔