ملکی ترقی اور اتحاد و اتفاق کے لیے ناگزیر ہے کہ ملک میں یکساں نظامِ تعلیم رائج کیا جائے،پروفیسر محمدابراہیم خان


اسلام آباد(صباح نیوز) نائب امیر و نگران شعبہ تعلیم جماعت اسلامی پاکستان پروفیسر محمدابراہیم نے کہا ہے کہ انگریزوں نے لارڈ میکالے کو ہندوستان اس لیے بھیجا کہ وہ یہ رپورٹ مرتب کرے کہ ہم برصغیر کے فاتح کیسے بن سکتے ہیں؟لارڈ میکالے نے کئی سال ہندوستان میں یہاں کے لوگوں، ماحول،معاشرت،رہن سہن،آداب و اطواراورنظامِ تعلیم کا بغور مطالعہ کیا اوراس نتیجے پر پہنچا کہ یہاں کا نظامِ تعلیم اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ایک باربرطانوی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم تب تک برصغیر کو فتح نہیں کر پائیں گے، جب تک کہ ہم وہاں کے لوگوں کو ان کے کلچر،ان کے اجداد کے کارناموں اور ان کی تاریخ سے دور نہیں کر دیں گے اورانھیں یہ باور کرانا ہو گا کہ وہ کم تر ہیں اور ہم برترہیں۔ 1835ء میں میکالے نے تجویز دی کہ ہندوستان کے تمام تعلیمی اداروں میں فارسی کی جگہ انگریزی کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کیا جائے، ہندوستان کے روایتی نظام تعلیم کو یکسر تبدیل کرکے انگریزی کو ذریعہ تعلیم و تدریس بنایا جائے اور حقیقی اسلام کی تصویر مسخ کرکے غیر محسوس طریقے سے لادینیت کو فروغ دیا جائے۔ اِن تجاویز کی روشنی میں ہندوستان کا پورا نظامِ تعلیم جو صدیوں سے چل رہا تھا،یکسر تبدیل کیا گیا اور اُس دن کے بعد غلامی کا طوق پہنادیا گیا۔

ان خیالات کا اظہار اُنھوں نے اسلام آباد میں اسلامی جمعیت طلبہ کے زیر اہتمام نیشنل ایجوکیشن ڈائیلاگ اور نیشنل ایسوسی ایشن فارایجوکیشن(نافع) پنجاب جنوبی،پنجاب وسطی،خیبرپختونخوا شمالی اور خیبر پختونخوا جنوبی ریجنز کی ریجنل ورکنگ کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ان اجلاسوں میں نافع مرکز،ریجنز، اضلاع کے ذمہ داران اور اسکولوں کے سربراہان نے شرکت کی۔

پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ قیام ِ پاکستان کے بعدہوناتو یہ چاہیے تھا کہ لارڈمیکالے کے نظامِ تعلیم سے چھٹکارہ حاصل کرکے قرآن و سنت کی روشنی میں اپنا تعلیمی نظام تشکیل دیتے،لیکن استعماری قوتوں کے تسلط اورغلامانہ سوچ کی وجہ سے لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کو ہی جاری رکھا،جو آج تک جاری ہے۔اس نظامِ تعلیم نے سب سے پہلے ہمیں دینی تعلیم اور دُنیوی تعلیم کی بنیاد پر تقسیم کیا،عصری علوم میں پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں تقسیم کیا،پرائیویٹ سیکٹر کوA&Oلیول،امیروں، متوسط اور غریب کی بنیاد پرتقسیم در تقسیم کیا اور مدارس بھی مسلکی بنیادوں پر تقسیم ہوئے۔یہی وجہ ہے کہ طبقاتی نظامِ تعلیم نے معاشرے میں اجتماعیت کے بجائے انفرادیت کو فروغ دیا ہے، طالبِ علموں کو طبقات میں بانٹ دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہم ایک اُمت اور ایک قوم بننے کی منزل سے دور نکل گئے اور غلامی کی دلدل میں قوم مسلسل دھنستی چلی جا رہی ہے۔ملکی ترقی اور اتحاد و اتفاق کے لیے ناگزیر ہے کہ ملک میں یکساں نظامِ تعلیم رائج کیا جائے۔

اُنھوں نے کہا کہ دُنیا کی مہذب قومیں تعلیم کے شعبے پر خصوصی توجہ دیتی ہیں،لیکن ہمارے سیاسی و عسکری حکمرانوں کی ترجیح اوّل بننے سے ہمیشہ محروم رہا ہے۔ تعلیمی اصلاحات کے بلند دعوے اور اعلانا ت تو کیے جاتے ہیں،مگر عمل درآمد نہیں ہوتا،اسی طرح تعلیمی پالیسیاں بھی بنتی ہیں،لیکن وہ فائلوں کی نذر ہو جاتی ہیں۔اُنھوں نے کہا کہ نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم کوقائد اعظم کے ‘خواب ‘اسلامی تعلیمات اورتحریک پاکستان سے ہم آہنگ کرنا وقت کی ضرورت ہے۔بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں نے اُس کے لیے کوششیں نہیں کی،آج تک قائد اعظم کا خواب آج تک شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔

اُنھوں نے کہا کہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ نئی نسل ذہنی انتشار کا شکار ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ تعلیمی اداروں اور گھروں میں تربیت کے پہلو پر توجہ کم اور ڈگریوں پر توجہ زیادہ دی جاتی ہے۔نئی نسل کے لیے گھروں اورتعلیمی اداروں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا نظم ہو نا ازحدضروری ہے۔اس کے لیے تعلیمی اداروں میں تربیتی پروگرامات،کورسزاور تربیتی حلقے موجود ہونے چاہییں،جہاں قرآن کی تعلیم کو عام کیا جائے،نبی اکرم ۖ کی سیرت سے نئی نسل کو روشناس کرایا جائے اور قرآن و سنت کی روشنی میں طلبہ و طالبات کی کردار سازی،تطہیرو تعمیرافکارکے لیے انتظامات کیے جائیں۔

اُنھوں نے کہا کہ اساتذہ اورطلبہ و طالبات کی کردار سازی کے لیے نافع کے زیراہتمام تعلیمی اداروں میں دعوتی یونٹس، تعمیر سیرت کیمپ،لیڈرشپ کیمپ،جینئس آف پاکستان،ٹیلنٹ ایوارڈ و دیگر سرگرمیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ نافع کے اجلاسوں میں موجودہ تعلیمی صورت حال پرقراردار پیش کی گئی۔قرارداد میں کہا گیا کہ موجودہ حکومت کی اسلام دشمن تعلیمی پالیسیوں کی پُرزورمذمت کرتے ہیں۔ قومی سالانہ تعلیمی بجٹ اونٹ کے منہ میں زیرہ بھی نہیں ہے،جس سے موجودہ حکومت کی تعلیم دشمن پالیسی بالکل واضح ہو جاتی ہے۔حالیہ کمر توڑ مہنگائی نے والدین کو بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنے کے قابل نہیں چھوڑا۔ تعلیمی ضروریات کی اشیا کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کی مذمت کرتے ہیں۔سندھ میں سرکاری سکولوں میں موسیقی کو بحیثیت مضمون پڑھانے کی بھی مزمت کی گئی اور حکومت پنجاب کو متنبہ کیا کہ سندھ حکومت کی طرح کا کوئی بھی قدم اٹھانے سے گریز کرے۔آئین کے آرٹیکل 251کی روشنی میں اُردو زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے پر بھی زور دیا گیا۔نصاب کو قرآن و سنت اور آئین کے آرٹیکل 31کی روشنی میں ترتیب دیا جائے۔یکساں قومی نصاب کے نام پرنصابِ تعلیم سے قرآن کی آیتیں اوراحادیث مبارکہ کوانتہاپسندی کی وجہ قراردے کرحذف کرنے کے سلسلے کو بند کیا جائے۔تعلیمی اداروں پر بے جا ٹیکسوں کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ فی الفور ٹیکسوں کا خاتمہ کیا جائے۔خیبر پختونخوا میں ریگولرٹی اتھارٹی کے نام پر تعلیمی اداروں کو حراساں کرنے کے سلسلے کو بندکر کے تعلیمی اداروں کے لیے سہولیات مہیا کریں۔اجلاس نے موجودہ حکومت کی سکولز میں تدریس قرآن کے حوالے سے سردمہری کی بھی مذمت کی گئی اور تعلیمی نصاب کو اغیار کے پنجوں سے آزاد کروا کر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ترتیب دینے پر زور دیا گیا۔