لاپتہ افراد کیس ،اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزیراعظم کو طلبی کے ساتھ اور کیا احکامات دیئے


اسلام آباد (عابدعلی آرائیں)اسلام آباد ہائیکورٹ نے لاپتہ افراد کے حوالے سے زیر سماعت کیس کی چار جولائی کو ہونے والی سماعت کا تحریری حکم نامہ جاری کیا ہے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے جاری کردہ حکم نامہ میں کہا گیا ہے کہ دوران سماعت فاضل ڈپٹی اٹارنی جنرل کو دلائل دینے کیلئے کہا لیکن انہوں نے بتایا کہ اٹارنی جنرل ہسپتال میں داخل ہیں اس لئے کیس کی سماعت ملتوی کیا جائے تاکہ اٹارنی جنرل عدالت کی معاونت کرسکیں انہوں نے مزید بتایا کہ وزیرداخلہ نے استدعا کی ہے کہ انہوں نے کابینہ کے اجلاس میں شرکت کرنی ہے ۔ فاضل ڈپٹی اٹارنی جنرل نے آگاہ کیا کہ سترہ جون کو جاری کیا جانے والے عدالتی حکم تاخیرسے ملنے کی وجہ سے سابق وزیرداخلہ کو آگاہ نہیں کیاجاسکا۔

عدالت نے لکھا ہے کہ سابق وزیرداخلہ 25مئی کو دیئے گئے حکم پر عملدرآمدمیں یکسر ناکام ہوچکے ہیں۔عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ لاپتہ افراد کے حوالے سے یہ درخواستیں بڑے عرصے سے زیر سماعت ہیں اس عدالت نے بڑے تحمل کا مظاہرہ کیا ہے تاکہ ان لاپتہ افراد کی بازیابی یا ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے ریاستی ستون اور ادارے اپنے سیاسی عزم کا مظاہرہ کرسکیں جس سے لاپتہ افراد کے پیارے مطمئن ہوسکیں۔

عدالت نے لکھا ہے کہ اس سے پہلے یہ معاملہ سابق دورحکومت میں وزیراعظم اور ان کی کابینہ کو بھجوایا گیا تھا لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عوام کے منتخب نمائندوں سے توقع کے مطابق اس کا جواب نہیں آیاتو دوبارہ ہدایت کی گئی کہ یہ معاملہ وزیراعظم اور ان کی کابینہ کے سامنے رکھاجائے جس کے بعد کابینہ نے وفاقی وزرا اور عوام کے منتخب نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی اگرچہ یہ حکومتی اقدام قابل ستائش ہے لیکن یہ ناکافی ہے ۔

عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ جبری گمشدگیوں کا معاملہ ریاست کی جانب سے اختیارات کے ناجائز استعمال کی بدتین مثال اور آئین پاکستان میں دیئے گئے بنیادی حقوق کی صریحا خلاف ورزی ہے حقیقت میں جبری گمشدگی نہ صرف لاپتہ افراد بلکہ ان کے پیاروں کے لئے ناقابل برداشت تشدد کے مترادف ہے ۔ان کو ناقابل تصور درد کا سامنا کرنا پڑتاہے اورمعاشرے میں ان کے عزت ، وقار کو بھی نقصان پہنچتا ہے ۔ عدالت نے لکھا ہے کہ جبری گمشدگی کا معاملہ ریاست کی غیر اعلانیہ پالیسی لگتا ہے کیونکہ سابق چیف ایگزیکٹوزمیں سے ایک جنرل ریٹائرڈ پرویزمشرف نے اپنی کتاب ”ان دی لائن آف فائر ”میں جبری گمشدگیوں کااعتراف کیا ہے۔

عدالت نے لکھا ہے کہ متعدد مواقع دینے کے باوجود ریاست کا ایک ستون انتظامیہ، ریاست کے ہاتھوں سنگین جبری گمشدگیوں کے المیے کی غیر اعلانیہ پالیسی روکنے کے حوالے سے اپنی ذمہ داری اداکرنے میں ناکام ہوچکی ہے ۔عدالت کا کہنا ہے کہ آئین کی سکیم سویلین کنٹرول اور نگرانی کے بنیادی اصول پر مبنی ہے ۔ عدالت نے لکھا ہے کہ نہ صرف فوج کاان جبری جبری گمشدگیوں میں ملوث ہونا بلکہ ایسا تاثر پیدا ہونا بھی بنیادی حقوق اور شہریوں کی آزادی کے حق کی خلاف ورزی ہے جس سے قومی سلامتی اور وقار کو نقصان ہوتا ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ کوئی چیف ایگزیکٹو یہ نہیں کہہ سکتا کہ ریاست کے اندر ایک ریاست موجود ہے کیونکہ ایسے عمل کو روکنا چیف ایگزیکٹو اور دیگر منتخب نمائندوں کا کام ہے ۔تمام ریاستی ادارے چیف ایگزیکٹو اور کابینہ کے ارکان کے سامنے جوابدہ ہیں ۔ایک چیف ایگزیکٹو جو یہ دعوی کرے کہ اس کا اداروں پر کوئی کنٹرول یانگرانی نہیں ہے وہ یہ اعتراف کرکے آئین کی سکیم کو سبوتاژ کرتا ہے۔

عدالت نے فیصلے میں لکھا ہے کہ اس عدالت کے سامنے متعدد مقدمات میں بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیموں نے یہ ڈکلیئر کیا ہے کہ جن شہریوں کو ٹریس نہیں کیا جاسکتا وہ جبری گمشدگیوں کا نتیجہ ہیں، جبری لاپتہ کئے گئے شہریوںکی بازیابی کیلئے بنایا گیا کمیشن غیر موثر رہا ہے جس نے متاثرین کے دکھ اور تکالیف میں مزید اضافہ کیاہے۔فیصلے میں عدالت نے نوٹ کیا ہے کہ جبری گمشدگیوں کا معاملہ انتہائی سنگین ہے جس سے کیس صورت انکار نہیں کیا جسکتا لیکن ریاست وفاقی حکومت کے ذریعے جبری کمشدگیوں کے حوالے سے موجودغیراعلانیہ پالیسی کے تاثر کو زائل کرنے میں ناکام رہی ہے۔

عدالت نے لکھا ہے کہ اس معاملے میں سابق وائس چیئر مین پاکستان بار کونسل عابد ساقی، آمنہ مسعود جنجوعہ اور فرحت اللہ بابر کو عدالتی معاون مقرر کیا گیا ہے ان تمام افراد نے موقف اپنایا ہے کہ ریاست کے ستون انتظامیہ خصوصا چیف ایگزیکٹو اور کابینہ ارکان کی ذمہ داری ہے کہ جو افراد لاپتہ ہوئے ہیں ان کی بازیابی یقینی بنائیں یا لواحقین کی تسلی کیلئے بتائیں کہ ان کو ٹریس کرنے کے بعد کیا معلومات حاصل کی گئی ہیں۔ ان تینوں عدالتی معاونین نے رائے دی ہے کہ وزیراعظم (چیف ایگزیکٹو) کو وضاحت کیلئے طلب کیاجائے کہ کیوں وفاقی حکومت لاپتہ افراد کو بازیاب کرانے میں ناکام ہوئی ہے یا لواحقین کی تسلی کیلئے لاپتہ افرادکو ٹریس نہیں کیا گیا اور کوئی معلومات حاصل نہیں کی گئیں۔

عدالت نے لکھا ہے کہ وفاقی حکومت کی درخواست پر کیس کی سماعت ملتوی کی جاتی ہے اور اٹارنی جنرل کو اس کیس میں دلائل کیلئے حتمی موقع دیا جاتا ہے اس دوران یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ وفاقی حکومت ،وزیراعظم یقینی بنائیں گے کہ آئندہ سماعت پر ان مقدمات میں درج لاپتہ افراد آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش کئے جائیں گے ۔ اور ان افراد کو پیش نہ کیا گیا تو وزیراعظم ذاتی حیثیت میں پیش ہوکر اس بات کا جواز پیش کرینگے کہ کیوں ریاست اپنی آئینی ذمہ داری اداکرنے میں ناکام ہوئی ہے۔ وزیراعظم سے یہ بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ عدالت کو یہ بھی بتائیں گے کہ ان افسران کے خلاف کیا کارروائی کی گئی ہے جو غیر انسانی اور سنگین جبری گمشدگیوں میں ملوث رہے ہیں ۔ فاضل وزیراعظم سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ یہ ثابت کرینگے کہ جبری گمشدیاں ریاست کی غیر اعلانیہ پالیسی نہیں ہے ۔

عدالت نے وزارت داخلہ کو ہدایت کی ہے کہ وزارت داخلہ 25مئی2022 کوعدالت کی طرف سے دی گئی ہدایات پر عملدرآمد یقینی بنائے۔
عدالت نے اپنے دفتر کو ہدایت کی ہے کہ اس فیصلے کی کاپیاں تمام متعلقہ عوامی عہدیداران کو خصوصی پیغام رساں فرد کے ذریعے بھجوائی جائیں
رجسٹرار ہائیکورٹ ان درخواستوں کو 9ستمبر2022کو دن دس بجے سماعت کیلئے مقرر کریں گے اور وزیراعظم بھی دن دس بجے عدالت میں پیش ہونگے۔

اس کیس کی سماعت کے دوران ڈپٹی اٹارنی جنرل محمد امتیاز، ایمان مزاری ایڈووکیٹ، کرنل ریٹائرڈانعام الرحیم ایڈووکیٹ، آمنہ مسعود جنجوعہ، فرحت اللہ بابر ،عابد ساقی، ڈپٹی سیکرٹری وزارت داخلہ نعیم سلیم، رجسٹرارلاپتہ افراد کمیشن خالدنسیم سمیت دیگر وکلا اور پولیس افسران عدالت میں پیش ہوئے تھے ۔