کب پدلے گی تقدیر۔۔۔تحریرروبینہ لیاقت ندیم


چائلڈ لیبر کے خاتمے کا عالمی پاکستان سمیت دنیا بھر میں 12 جون کو چائلڈ لیبر کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد نو عمر بچوں کو مشقت کی اذیتوں سے نجات دلا کر انہیں اسکول کا راستہ دکھانا اور معاشرے کا مفید شہری بنانے کیلئے مدد مہیا کرنا ہے۔

چائلڈ لیبر کے خلاف عالمی دن کے موقع پر بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی انجمنوں، اسکولوں، کالجوں، نوجوانوں کی تنظیموں، میڈیا، خواتین کی تنظیموں اور سماجی تنظیموں کے زیر اہتمام سیمینارز، مذاکرے، واکس اور تقریبات کا اہتمام کیا جائے گا جن میں ماہرین چائلڈ لیبر سے پیدا شدہ صورتحال کے متعلق لیکچر دیں گے۔
بچوں کی مشقت کے خلاف عالمی دن کی بنیاد انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن نے2002میں رکھی تھی۔
ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں کروڑوں بچے گھریلو حالات سے مجبور ہو کر مشقت کررہے ہیں۔ چائلڈ لیبر کا شکار ان بچوں اور بچیوں کی عمریں 5سے 15برس کے درمیان ہیں۔
ان میں بہت سے بچے غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں سے انہیں تعلیم اور مناسب خوارک کی سہولتیں حاصل نہیں ہوتی ہیں۔
پاکستان میں چائلڈ لیبر کے خلاف قانون موجود ہیں مگر یہ ناکافی اور غیر موثر ہیں، ’’آپ کو یہ سن کر بہت حیرانی ہو گی کہ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سے لے کر اب تک ایک بھی شخص کو بچوں کو ملازمت پر رکھنے کی وجہ سے گرفتار نہیں کیا گیا۔ سزا دی گئی تو صرف جرمانے کی جس کی رقم نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے علاوہ عملدرآمد نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جتنے بھی قوانین بنائے گئے ہیں وہ رسمی یا فارمل سیکٹر کا احاطہ کرتے ہیں۔ جو ہمارا غیررسمی سیکٹر ہے، اس سے متعلق بہت ہی کم قوانین ہیں۔ مثلا گھریلو ملازم بچوں سے متعلق کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ اسی طرح جو بچے گاؤں یا دیہات میں زراعت کے پیشے میں کام کرتے ہیں، ان سے متعلق کوئی قانون نہیں۔ یعنی چائلڈ لیبر کا ایک بہت بڑا حصہ ایسا ہے، جن سے متعلق کوئی قانون نہیں بنایا گیا ہے۔‘‘
واضع رہے کہ ملک میں ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ کے مطابق، جو شخص بھی 16 سال سے کم عمر بچوں کو ملازم رکھتا ہے یا اس کی اجازت دیتا ہے تو اسے 20 ہزار روپے تک جرمانہ یا قید کی سزا جسکی مدت ایک سال تک ہو سکتی ہے، یا دونوں سزائیں اکٹھی بھی دی جا سکتی ہیں۔ اگر وہ شخص دوبارہ اسی طرح کے جرم کا ارتکاب کرے تو اس کی کم از کم سزا 6 ماہ ہے جس کی مدت دوسال تک بڑھائی جا سکتی ہے۔
عالمی ادارہ محنت کے مطابق چائلڈ لیبر کے زمرے میں آنے والے بچوں کی تعداد زیادہ تر قالین بافی، چوڑیاں بنانے کی صعنت، سرجیکل آلات بنانے، کوڑا چننے، چمڑا رنگنے کی صعنت کے علاوہ گھروں میں ملازمت کرتے ہوئے پائی جاتی ہے۔
بین الاقوامی سطح پر اگر ان صنعتوں کی مصنوعات درآمد کی جائیں تو ان پر عالمی پابندیاں عائد ہونے کا امکان ہوتا ہے تاہم ان صعنتوں میں بچوں کی موجودگی کے باوجود پاکستانی مصنوعات پر پابندیاں نہیں ہیں، ’’اب تک تو ایسا نہیں ہے کہ پاکستان کی مصنوعات پر چائلڈ لیبر کی وجہ سے پابندی عائد کی گئی ہو۔ آج سے 10 سال پہلے قالین بافی کی صنعت میں چائلڈ لیبر کی وجہ سے اس کی درآمد پر پابندی کی بات ضرور کی گئی تھی لیکن عائد نہیں ہوئی تھی۔ اسی طرح فٹ بال بنانے کی صنعت میں چائلڈ لیبر کے استعمال کے باعث پابندی عائد کی جا رہی تھی تاہم بے تحاشہ فنڈنگ کے بعد اس معاملے کو بھی نمٹا لیا گیا اور حالیہ ایسی کوئی ملکی مصنوعات نہیں ہیں، جن کی درآمد پر پابندی عائد ہو۔‘‘
چند ماہ قبل انٹرنیشنل لیبرآرگنائزیشن کے تحت جو رپوٹ شائع ہوئی، اس میں دنیا کے 67 ایسے ممالک کی فہرست جاری کی گئی ہے، جہاں چائلڈ لیبر کے حوالے سے خطرناک صورتحال ہے۔ اس فہرست میں پاکستان کا چھٹا نمبر ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس صورتحال کو بہتر کرنے میں حکومت سنجیدگی سے کوشش کرے اور مؤثر قانون سازی پر توجہ دے تو ملک میں چائلڈ لیبر کا خاتمہ ممکن ہے۔
پاکستان میں بچوں سے ملازمت یعنی چائلڈ لیبر کی ممانعت سے متعلق کون کون سے قوانین موجود ہیں؟

اس سے پہلے کہ ہم قوانین محنت کے بارے میں بات کریں، آئیے پہلے چائلڈ لیبر سے متعلق آئینی شقوں کو دیکھتے ہیں۔

آئین کے آرٹیکل 3 کے تحت مملکت، استحصال کی تمام اقسام کے خاتمہ اور اس بنیادی اصول کی تدریجی تکمیل کو یقینی بنائے گی کہ ہر کسی سے اسکی اہلیت کے مطابق کام لیا جائے گا اور ہر کسی کو اسکے کام کے مطابق معاوضہ دیا جائے گا۔

آئین کے آرٹیکل 11 کے تحت چودہ سال سے کم عمر بچے کو کسی کارخانے یا کان یا دیگر پرخطر ملازمت میں نہیں رکھا جائے گا۔

آئین کے آرٹیکل 25کے تحت ریاست تمام پانچ سال کی عمر سے لیکر سولہ سال کی عمر کے بچوں کیلیئے لازمی اور مفت تعلیم دینے کا انتظام کرے گی جسکا تعین قانون کر ے گا۔

آئین کے آرٹیکل 37کے تحت ریاست منصفانہ اور نرم شرائط کار، اس امر کی ضمانت دیتے ہوئے کہ بچوں اور عورتوں سے ایسے پیشوں میں کام نہ لیا جائے گا جو انکی عمر یا جنس کیلیئے نا مناسب ہوں، مقرر کرنے اور ملازم عورتوں کیلیئے زچگی سے متعلق مراعات دینے کیلیئے احکام وضع کرے گی۔

:نیچے دیئے گئے قوانین خصوصی طور پر چائلڈ لیبر سے متعلق ہیں

ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ 1991
ایمپلائمنٹ آف چلڈرن رولز1995

انکے علاوہ دیگر قوانین بھی ہیں جو بچوں کی ملازمت سے متعلق ہیں اور کام کرنے والے بچوں کے حالات کار کو ضابطے میں لاتے ہیں۔

مائنز ایکٹ1923
چلڈرن (پلیجنگ آف لیبر) ایکٹ1933
فیکٹریز ایکٹ1934
روڈ ٹرانسپورٹ ورکرز آرڈیننس1961
شاپس اینڈ اسٹیبلشمنٹس آرڈیننس1969
مرچنٹ شپنگ آرڈیننس2001

پاکستان میں ملازمت کیلیئے کم از کم عمر کی حد کیا ہے ؟

ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ کے تحت بچے سے مراد وہ شخص ہے جسکی عمر چودہ سال سے کم ہو جبکہ نوبالغ وہ ہے جسکی عمر چودہ سال سے زیادہ لیکن اٹھارہ سال سے کم ہو۔ جیسے اوپر ذکر کیا گیا کہ آئین میں بھی کم از کم عمر کی حد چودہ سال ہے لیکن اٹھارویں ترمیم نے دراصل کم از کم عمر کی حد چودہ سال سے بڑھا کر سولہ سال کر دی ہے کیونکہ اب آئین کی پچیسویں شق کے مطابق ریاست کییلیئے ضروری ہے کہ وہ پانچ سے سولہ سال کی عمر کے بچوں کیلیئے لازمی اور مفت تعلیم کا انتظام کرے جس سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ایک بچے سے سولہ سال کی عمر سے پہلے ہر وہ کام جو چائلڈ لیبر کے زمرے میں آتا ہو کام نہیں کروایا جا سکتا۔

اس قانون میں چند مستثنیات کا بھی ذکر ہے یعنی کچھ صورتوں میں قانون کا اطلاق نہ ہو گا۔

قانون کے مطابق بچوں کو کسی بھی ایسے پیشے، کاروباری ادارے اور پیداواری عمل میں کام کیلیئے نہیں رکھا جا سکتا جسکا تعین خطرناک کام کے طور پر کیا گیا ہو تاہم اگر کوئی بچہ، خاندانی یا نجی کاروبا ر/فیملی بزنس میں مصروف عمل ہے یا کسی ٹریننگ/تربیتی سکول (حکومت کا قائم کردہ یا منظور شدہ) میں ان پیشوں یا پیداواری عملوں سے متعلقٹریننگ لے رہا ہو تو ان پر بچوں کی ملازمت سے متعلق ممانعت کا اطلاق نہ ہو گا۔

بچوں کی ملازمت کی ممانعت کون کون سے پیشوں اور پیداواری عملوں کیلیئے کی گئی ہے؟

ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ / بچوں کی ملازمت کے قانون مجریہ1991 کی دفعہ چار کے تحت وفاقی حکومت ان تمام پیشوں اور پیداواری عملوں کے متعلق نوٹیفیکیشن جاری کر سکتی ہے جہاں بچوں کی ملازمت پر پابندی لگائی جا سکتی ہے