شہباز شریف صاحب کے سابقہ دور میں یوں تو تمام افسر ہی ہر گھڑی چاق چوبند رہتے تھے مگر وزیراعلیٰ کے اردگرد رہنے والے اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرتے تھے۔ ان میں ایک نوجوان افسر احد چیمہ اپنی کمٹمنٹ، محنت، پْھرتی اور کام کے جنون کے باعث بہت نمایاں تھا۔ وہ وزیراعلیٰ کو اس لئے عزیز تھا کہ مطلوبہ منصوبے کو وقت پر انجام دینے کی صلاحیت رکھتا تھا، چاہے اس کے لئے اسے شب و روز کام کیوں نہ کرنا پڑے۔ خود پر کئے گئے اعتماد کو اس نے ہر بار سچ ثابت کیا تو ذمہ داریوں اور توقعات کا بوجھ بڑھتا گیا۔
ترقی کے نت نئے خواب دیکھنے، بدلتے وقت کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے، زمانے کے ساتھ چلنے اور خوابوں کو تعبیر میں ڈھالنے کےلئے شب و روز بے چین رہنے والا سیاسی حکمراں اپنے ساتھ ایسے افسروں کو تعینات کرتا ہے جو اس کی آنکھ کا اشارہ سمجھیں، اس کے دل کی تمنا سے واقف ہوں، اس کے مقصد کو سنجیدگی کی آخری حد تک اپنائیں، اس کی ترجیحات کو ہر لمحہ ساتھ رہنے والی نوٹ بک بنائیں ،طے شدہ وقت سے بھی کچھ دیر پہلے کام کو مکمل کرنے کی صلاحیت رکھیں اور سب سے اہم بات یہ کہ اپنے باس کی سوچ کی وسعت اور ادراک کا پیچھا کر سکیں۔ یقینا ًاحد چیمہ ایسا ہی افسر تھا جس کے ارادے اور ڈیلیور کرنے کی صلاحیت کے باعث وقت سے پہلے بڑی ذمہ داریاں اسے سونپی گئیں جنہیں اس نے کمال طریقے سے نبھا کر دکھایا۔ اس شب وروز کی بھاگ دوڑ نے اس کو تھکایا نہیں، تروتازہ رکھا بلکہ کام مکمل ہونے کی خوشی اور اچھی شہرت کے احساس نے اس کا حوصلہ مزید بلند کیا۔
پھر اسے نظر لگ گئی، صرف اس بناء پر کہ وہ شہباز شریف کے بہت قریب تھا سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا، سب لوگ حیران تھے۔ افسروں نے کالی پٹیاں باندھ کر احتجاج کیا اور سمجھانے کی کوشش بھی کی کہ اس قربت کی وجہ کام کام اور کام تھا، صوبے و ملک کے لئے کام کرنے والے کا کوئی قصور ثابت نہ ہو سکا، ہوائی کیس، چھاپے اور ریکوریوں کی خبریں اس کے خاندان اور دوست احباب پر بجلی بن کر گرتی رہیں مگر سچ سامنے آ ہی جاتا ہے۔ آخر کار ڈھائی تین سال کی اذیت کے بعد اسی دور میں بے گناہ بری ہوا مگر نوکری سے دل اچاٹ ہو گیا۔
اینٹوں کی جیل کے بعد ذات کی جیل میں مقید ہو گیا کہ شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے بعد بھی کوئی من پسند پوسٹ اسے دوبارہ جوائننگ پر آمادہ نہ کر سکی۔ شاید اب اس میں مزید اذیت سہنے کی ہمت نہیں رہی یا وہ دوبارہ کسی امتحان سے گزرنا نہیں چاہتا۔ اسے ایک چینل پر بات کرتے دیکھ کر محسوس ہوا کہ کام سے نہ تھکنے والا منفی رویوں سے تھک بھی چکا ہے اور ٹوٹ بھی۔ اس کا دل جس گہرے صدمے کے وار برداشت کر چکا ہے اسے بھلانا آسان نہیں ہے۔ اس کے جوابات میں کرب سے بھرے ہوئے سوال پوشیدہ تھے۔ وہ اپنی کہانی سنا بھی رہا تھا اور کہانی لکھنے والوں سے پوچھ بھی رہا تھا۔ کہتے ہیں کوئی گنہگار سزا سے بچ جائے تو اگلے جہاں تک معاملہ چلا جاتا ہے مگر بے گناہ کو سزا مل جائے تواس کا کوئی بھی مداوا نہیں کر سکتا۔ تاہم موجودہ حکومت کی کاوشوں کا شکریہ کہ وہ اسے ذات اور سوالات کی قید سے نکال کر عمل کی شاہراہ پر لے آئی اور اسے وزیراعظم کا مشیر بنا دیا گیا ۔ مگر سوال یہ ہے کہ وہ تمام لوگ کیا ضمیر کی آواز نہیں سنتے جن کی نفرت اور تعصب کی وجہ سے کوئی بے گناہ اور لائق افسر تذلیل کے جان لیوا مرحلوں سے گزر کر اپنی سمت ہی تبدیل کر لیتا ہے۔
صوبے میں احد چیمہ تو مرکز میں خوبصورت غزلیں اور نظمیں کہنے والے فواد حسن فواد نشانہ بنے۔ انھوں نے اپنی ملازمت کے آخری سال جیل میں گزارے بلکہ جیل میں ہی ان کی ملازمت اختتام پذیر ہوئی۔ پھر وہ بھی بے گناہ ثابت ہو گئے مگر دلوں میں ٹھہرے درد کب ساتھ چھوڑتے ہیں۔ سوال پوچھتے ہیں، جرح کرتے ہیں، شور کرتے ہیں۔ احد چیمہ کا استعفیٰ ایک سوال ہے۔ حکومتوں سے، میڈیا سے، اداروں سے، سرکاروں سے اور دانش وروں سے، اس سوال کا بوجھ کسی نے نہیں اٹھایا تو افراد کی صلاحیتیں انتقام کی بھینٹ چڑھ کر قتل ہوتی رہیں گی۔
بشکریہ روزنامہ جنگ