سیاسی استحکام سے معاشی استحکام تک۔۔۔تحریر ڈاکٹر صغریٰ صدف


سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام کا حصول مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ دنیا ہمیشہ ایسے ممالک سے تجارتی معاہدے کرنا پسند کرتی ہے جہاں سیاسی استحکام ہو کیونکہ سب کو اپنے منصوبوں کی تکمیل اور کامیابی عزیز ہوتی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے جس دن قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیا تھا، اسٹاک ایکسچینج کی شرح یک دم بڑھ گئی تھی۔ پھر ایک مہینہ گومگو کے عالم میں گزرا۔ حکومت میں رہنے یا نہ رہنے کے حوالے سے متضاد خبروں کے باعث معیشت کا گراف منفی ہونے لگا جبکہ حالیہ کمٹمنٹ کے بعد دوبارہ تیزی دیکھی گئی ہے۔

کہتے ہیں طاقتور ہمیشہ اپنے جیسے طبقات کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ آئی ایم ایف نے کبھی کسی بھی حکومت کو اللّے تللے ختم کرنے، سادگی اپنانے اور جن جماعتوں پر فارن فنڈنگ جیسے کرپشن کے بڑے الزامات ہیں، کے کیسوں کو سامنے لا کر ان سے واجبات وصول کرنے کی بات نہیں کی بلکہ غریب کو ہی امتحان میں ڈالا ہے۔ اُس کی نظر ہمیشہ کم آمدنی والے طبقے کی ناتواں جیب کی طرف ہی مرکوز رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف کے مطالبے پر پٹرول کی قیمت بڑھانے اور سبسڈیز ختم کرنے کے حوالے سے حکومت نے خاصی حیل و حجت سے کام لیا کہ شاید اس کے بغیر ہی کوئی صورت نکل آئے مگر آخرکار ان کی شرائط تسلیم کر لی گئی ہیں۔ اگرچہ یہ سب ناگزیر تھا مگر امیر اور غریب کے درمیان جو تقسیم مزید گہری ہوئی ہے، اسے کم کرنے کے لئے حکومت کو روزمرہ اخراجات میں کمی کر کے کچھ اصلاحات کرنی چاہئیں، سادگی اپنانے کی تحریک چلانے کی ضرورت ہے، سرکاری دفاتر کو اس حوالے سے اہم کردار ادا کرنا چاہئے۔ تمام محکموں کے سربراہ خود بھی اس پر عمل کریں اور دیگر کو بھی اس کی تحریک دیں۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے اور ملکی معیشت کو دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کا ہے یہ سب ایک سیاسی حکومت ہی کر سکتی ہے۔ کوئی کیئر ٹیکر یا عبوری نظام ملک کو اس دلدل سے نہیں نکال سکتا۔ عبوری نظام میں زیادہ تر غیر سیاسی لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے نہ کبھی انتخاب لڑا اور نہ عوام کو جوابدہ ہوئے جبکہ سیاسی لوگ جان کی بازی لگا کر اس عدم توازن کو توازن میں بدل سکتے ہیں کیو نکہ انہیں اپنی کارکردگی دکھا کر اگلے انتخابات میں بھی جانا ہوتاہے،اس وقت تمام جماعتوں کی مشترکہ حکومت قائم ہے یعنی بہت سارے دماغ اپنی قابلیتوں سے وہ نتائج لا سکتے ہیں جو بظاہر ناممکن دکھائی دیتے ہیں۔ یاد رکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ جب قومیں ایک مخصوص رستہ اختیار کرلیتی ہیں تو اسی حوالے سے ان کی قسمت کا فیصلہ ہوتا ہے۔ حکمرانی، جسے خدمت سمجھا جانا چاہئے، بھی خدا کی طرف سے عطا ہوتی ہے۔

کبھی کوئی حکمران ہمیں سبق سکھانے آتا ہے تو کوئی منجدھار سے نکالنے کے لئے۔ میں سمجھتی ہوں کہان دگرگوں حالات میں قدرت کی خاص مہربانی ہے کہ ایک ان تھک اور خدمتِ خلق کو اپنا فرض سمجھنے والے فرد کو یہ ذمہ داری عطا کی گئی ہے جو نہ صرف خود ہر لمحہ متحرک رہتا ہے بلکہ اداروں اور افسروں کو بھی متحرک رکھتا ہے۔ یاد رہے جادو ٹونے، تعویز دھاگے اور مخصوص عملوں سے تصوف کا کوئی سروکار نہیں یہ ایک متوازی نظام ہے جو مادی نظام کی طرح قائم دائم ہے۔ جب تک ان دونوں میں مطابقت نہیں ہوتی حالات و واقعات میں گڑ بڑ اور انتشار قائم رہتا ہے۔ اخلاقی نظام کو بہتر بنانے اور خیر کو پھیلانے کے لئے باطن کی آواز پر توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر شخص میں روح کی موجودگی کا مطلب رب سے رابطے کی نشانی ہے۔ صرف اس کی آواز سننے اور رابطے کی تار کو جوڑے رکھنے کی ضرورت ہے رہنمائی، برکت اور مدد کا سلسلہ جاری ہو جاتا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت کے ساتھ باقی اداروں بلکہ ہر محکمے کو بھی ایک پیج پر ہونا پڑے گا اور اس کا اظہار زبانی نہیں عملاً نظر آنا چاہئے،ہر فرد کو اپنی بہترین صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے ملکی ترقی میں حصہ لینا چاہئے۔ یہ عمل ہی سیاسی استحکام کا باعث بنے گا۔ ہم نے پون صدی تک بڑے ناکام تجربات کر لئے اب سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں پہلا قدم اپنے اس عظیم ملک سے وفا کو ایمان بنانے کا ہے۔ رقبے، آبادی، وسائل اور ذہین افراد کے ہوتے ہوئے ہم چھوٹے چھوٹے ملکوں کے قرض دار ہیں ، اس کی بڑی وجہ سیاسی طور پرعدم استحکام اور منصفانہ انتخابات نہ ہونے کے باعث کسی جماعت کو واضح برتری سے دور رکھنا ہے۔ اب ہمیں آپس کی لڑائی ترک کر دینی چاہئے۔ اس وقت جماعتی فائدے کے لئے حکومت چھوڑ کرجانا ملکی مفادات کے خلاف ہو گا اور وزیراعظم کی ذات پر ایک سوال بھی ہمیشہ کے لئے موجود رہے گا کہ وہ نامساعد حالات کا مقابلہ کرنے اور انہیں بہتر بنانے کی بجائے کنارہ کش ہو گئے اور ڈیلیور نہ کر سکے۔ ناکامی کے اس داغ کا سامنا دیگر جماعتوں کو بھی کرنا پڑے گا اس لئے اس وقت ڈٹ کر کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ رب اچھی نیتوں کا اچھا صلہ ضروردیتا ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ