وقت خطرے کی گھنٹی بجارہا ہے۔
بحران عمودی بھی ہے۔ افقی بھی۔ قیادتیں بے بس ہیں۔ ماہرین حیران پریشان ہیں۔ مشکل فیصلے ناگزیر کہے جارہے ہیں۔ مگر کیے نہیں جارہے ۔ اس بحران کے بطن سے کئی نئے بحران جنم لینے والے ہیں۔ بارودی سرنگیں بچھ رہی ہیں، ان کا شکار کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ میں بھی آپ بھی۔ ہمارے بیٹے بیٹیاں۔ پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں بھی۔ان کی فکر حکومت کو ہے نہ اپوزیشن کو۔
شکریہ:سپریم کورٹ۔ انتہائی بروقت از خود نوٹس۔ پراسیکوشن میں بچھائی جانے والی بارودی سرنگیں ناکارہ کردی گئی ہیں۔ قاتل اپنے نشان مٹا رہے تھے۔ شواہد کو بدلا جارہا تھا۔
آج اتوار ہے۔ اپنے مستقبل سے ہم کلام ہونے کا دن۔ ہم اندازہ ہی نہیں کرسکتے کہ اس وقت ہمارے بیٹوں بیٹیوں، پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں کے ذہنوں میں کتنے طوفان آرہے ہیں۔ وہ ایک طرف اسمارٹ فون پر دنیا کو دیکھ رہے ہیں کہ وہاں کووڈ کے بعد کس طرح سیاسی اور معاشی استحکام کیلئے حکومتیں، کارپوریٹ ادارے، یونیورسٹیاں منصوبہ بندی کررہی ہیں۔ دوسری طرف وہ اپنے ہاں ہنگامہ آرائی، بڑے بڑے جلسے، ایک دوسرے پر الزامات، جملے بازی، القابات دیکھتے ہیں۔ اخلاقیات نیلام ہورہی ہیں۔ ضمیروں کی منڈیاں لگ رہی ہیں۔ روپیہ ڈالر کے سامنے پستیوں میں گرتا چلا جارہا ہے۔ اس پر تشویش کی بجائے ایک جشن کی کیفیت ہے۔ موجودہ گزشتہ پر گزشتہ موجودہ پر الزام عائد کررہے ہیں۔ نیچے گرتا ہوا پاکستانی روپیہ دونوں کی طرف دیکھ رہا ہے۔
کیا بے بس صرف موجودہ حکمران ہیں۔ یا 22کروڑ پاکستانی۔ کیا اس کی ذمہ داری پچھلی 3½سالہ حکومت پر ڈالنے سے ڈالر نیچے آجائے گا؟
انتہائی تحمل سے سنجیدگی سے میرے ساتھ مل کر سوچیں کہ کیا 1977 سے ڈالر اسی طرح بے لگام ہوتا نہیں آرہا۔ اس میں فوجی حکومتیں بھی آئی ہیں۔ سیاسی بھی۔ عام طور پر کہہ دیا جاتا ہے کہ مارشل لاؤں نے یہ بحران پیدا کیے ہیں۔ یقینا ایسا بھی ہے۔ لیکن کیا یہی ایک سبب ہے؟ ملک میں اس وقت جو اخلاقی پستی ہے۔ معاشی بد حالی ہے۔ اس کی ذمہ دار فوجی اور سیاسی قیادتیں دونوں ہیں۔ فوج میں تو ایک تنظیم ہے۔ وہ اپنے آپ کو سنبھال لیتی ہے۔ ایک ڈسپلن ہے۔ مگر سیاسی پارٹیاں سراسر غیر منظّم۔ ان کی تنظیم ملک گیر نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک حساس محل وقوع ۔ بے حساب قدرتی وسائل اور60فی صد نوجوان آبادی سے نوازا ہے۔ ریاست اور حکومتوں کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ان سارے عناصر۔ موسموں کو سامنے رکھ کر آئندہ کم از کم پندرہ بیس سال کے امکانی نقشے بنائیں۔ پھر ان خاکوں میں رنگ بھریں۔
آج اگر بے چارہ روپیہ لڑکھڑا رہا ہے۔ درآمدات برآمدات کو پچھاڑ رہی ہیں۔ بجلی ضرورت کے مطابق پوری نہیں ہورہی۔ یہ سب کچھ اچانک تو نہیں ہورہا۔ ماہرین تو برسوں سے خطرے کی گھنٹیاں بجارہے تھے۔ اب بھی آبی ماہرین پانی کی سخت قلت کا احساس دلارہے ہیں۔ کیا ہم اس کا کوئی سد باب کررہے ہیں۔ کیا ہم پانی کے استعمال میں احتیاط برت رہے ہیں۔
میں تو آج ابتلاؤں کی ذمہ داری ساری سیاسی پارٹیوں، پاکستان تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ(ن) پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام(ف)، عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، بلوچستان عوامی پارٹی اور فوج پر عائد کروں گا کہ گزشتہ چالیس برس سے ملک پر یہ حکومت کرتی آ رہی ہیں۔ ریاست کے وسائل کا استعمال کررہی ہیں۔ ان میں سے کسی نے بھی کسی سال آئندہ پندرہ بیس سال کو چھوڑیں۔ آئندہ تین چار سال کا امکانی نقشہ بھی تیار کیا ہو۔ کبھی بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہو۔ کہیں ایسی کوئی دستاویز مرتب کی ہو۔
ہر سیاسی پارٹی حضرت انسان کی زندگی آسان کرنے کا عزم لے کر میدان میں اترتی ہے۔ یقیناً اسے اپنی اس حساس ذمہ داری کا ادراک ہونا چاہئے۔ یہ شعور بھی کہ جب سیاسی پارٹیاں فعال ہوتی ہیں۔ اسمبلیاں اپنا کام کررہی ہوتی ہیں تو ملک بھر کی یونیورسٹیوں۔ تجارتی صنعتی کمپنیوں اور سرکاری محکموں کو یہ اعتماد ہوتا ہے کہ ملک کی رہنمائی اور آگے لے جانے کے لیے معزز رہنما اور ان کی تنظیمیں موجود ہیں۔ اکیسویں صدی میں اور 22 کروڑ آبادی والے ملک میں ایک سیاسی پارٹی کا ڈھانچہ کیا ہونا چاہئے، اس کا سیکرٹریٹ کیسا ہونا چاہئے۔ ویب سائٹ سے کیا کیا معلومات میسر ہوں۔ تازہ ترین اعداد و شُمار آویزاں ہوں۔ ملکی اور عالمی معاملات پر ان کی کیا رائے ہے؟یہ بھی 24 گھنٹوں میں سامنے آ جانی چاہئے۔
کیا ایسا ہے؟ کیا کوئی سیاسی پارٹی اس معیار پر پورا اترتی ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے اس ڈسپلن کا نگران الیکشن کمیشن ہے۔ کیا وہ اس ذمہ داری کو نباہ رہا ہے؟گزشتہ چالیس سال میں ملک جن بحرانوں سے دوچار رہا ہے کیا کسی سیاسی پارٹی نے اس کا سنجیدگی سے، غیر جانبداری سے معروضی تجزیہ کرکے کوئی دستاویز شائع کی ہے؟
22 کروڑ جیتے جاگتے انسانوںکی تقدیر کے فیصلے کرنے کا فریضہ آپ خود کو سونپ رہے ہیں۔ اس کیلئے آپ کوئی مطلوبہ ڈھانچہ تعمیر کررہے ہیں نہ ماہرین آپ کے پاس ہیں۔ نہ کوئی دستاویز تیار کرتے ہیں حالات تو بے قابو ہوں گے جیسے ہورہے ہیں۔ ڈالر تو بے لگام ہوگا جیسے ہورہا ہے۔ آپ ایک دوسرے پر الزامات سخت سے سخت لگائیں۔ ڈالر کا کچھ نہیں بگڑتا۔ اعداد و شُمار نعروں سے بدلتے ہیں نہ جذباتی تقریروں سے۔ اب تحریک انصاف کا پورا زور جلسوں پر ہے۔ اسد عمر بھی وہیں موجود ہیں۔ دوسرے رہنما بھی۔ اس وقت کا بحران جو نئے بحران جن رہا ہے آنے والے وقتوں کیلئے بارودی سرنگیں بچھارہا ہے۔ اسکے مقابلے کی کاغذی تیاری کون کررہا ہے۔
موجودہ حکومت جسے ایک دنیا امپورٹڈ کہہ رہی ہے۔ اس نے کیا پچھلے 3½ سال میں کوئی دستاویز تیار کی تھی۔ اگر جائزہ لیا ہوتا تو انہیں یقیناً یہ خطرناک موڑ نظر آجاتے اور انہوں نے اس کے لیے لائحہ عمل بھی تیار کیا ہوتا۔مشکل فیصلے کرچکے ہوتے۔
کیا سیاسی پارٹیوں کو اپنے مختلف مناصب پر فائز عہدیداروں کی تربیت کی تشویش ہے۔ اور سیاسی پارٹیوں کی ہیئت، انتخابات، مالی حیثیت، فنڈنگ پر نظر رکھنے کے ذمہ دار الیکشن کمیشن نے کبھی ان سیاسی پارٹیوں کی بد نظمی پر کوئی دستاویز تیار کی ہے۔
ہمیں صرف موجودہ بحران سے نہیں نکلنا۔ اس کی کوکھ سے جنم لینے والے آئندہ دس پندرہ سال کے بحرانوں کا تدارک بھی کرنا ہے۔جب ہم معیشت کو دستاویزی کرنا چاہتے ہیں تو کیا سیاسی پارٹیاں نہیں ہونی چاہئیں۔ اپنی کارکردگی پر دستاویزیں چھاپیں۔ صرف ٹویٹ سے کام نہ چلائیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ