گزشتہ ماہ 28 اپریل کو وفاقی شرعی عدالت نے تقریبا 20 سال کے بعد سود کے خلاف فیصلہ دیا اور وفاقی حکومت کو حکم دیا کہ پانچ سال کے اندر نظامِ معیشت کو سود کی لعنت سے پاک کیا جائے۔
دیر آید درست آید۔1992 میں سود کے خلاف وفاقی شرعی عدالت نے اپنا فیصلہ سنایا تھا لیکن اس وقت کی نواز شریف حکومت نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا اور پھر یہ معاملہ عدالتوں میں گزشتہ 30 برس گھومتا رہا اور یوں پاکستان کی معیشت اور اس کی عوام کی بڑی تعداد سود جیسے بڑے گناہ میں کسی نہ کسی طرح مبتلا رہی۔
سود کے خلاف 1992 کے فیصلے پر عملدرآمد کی بجائے اسے چیلنج کرنے کا فیصلہ اس وقت کی نواز شریف حکومت کا ایک ایسا گناہ ہے جس کا نواز شریف کے پاس کفارہ ادا کرنے کا سنہری موقع ہے۔ آج پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف ہیں جو نواز شریف کے چھوٹے بھائی ہیں اور ان کا تعلق اسی ن لیگ سے ہے جس کی سربراہی میاں نواز شریف کر رہے ہیں۔
سود کتنا بڑا گناہ ہے اس بارے میں میاں صاحب کو خوب معلوم ہو گا اس لیے میری ان سے درخواست ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کو سختی سے ہدایت جاری کریں کہ وہ شرعی عدالت کے فیصلے پر سنجیدگی سے جلد از جلد عملدرآمد کروانے کے لیے اقدامات کریں تاکہ پاکستان کی قوم کو اس لعنت سے چھٹکارا مل سکے۔
یہ میرا ایمان ہے کہ اس لعنت سے ہم جان چھڑائیں گے تو اس سے پاکستان اور عوام دونوں خوشحال ہوں گے۔ میں نے چند دن پہلے اس بارے میں وزیر اعظم شہباز شریف سے بھی بات کی اور انہیں یہی باور کروایا کہ اس گناہ کو جو 1992 میں نواز حکومت سے سرزد ہوا، اس کا ان کے پاس کفارہ ادا کرنے کا بہترین موقع ہے جسے کسی صورت بھی ضائع نہیں کیا جانا چاہیے۔
یہاں میں پاکستان کی سیاست میں بڑھتی ہوئی نفرت اور انتشار کے متعلق محترم مفتی محمد تقی عثمانی کے حالیہ بیان کو قارئینِ کرام کے لیے پیش کر رہا ہوں اس امید کے ساتھ کہ ہو سکتا ہے کہ مفتی صاحب کی بات ہی کسی کو سمجھ آ جائے ۔ عید کے موقع پر اپنے خطاب میں سیاسی قیادت اور قوم کے نام اہم پیغام میں مفتی صاحب نے کہا
ہاتھ جوڑ کر کہتا ہوں کہ خدا کے لئے نفرتوں کے بیج بونا ختم کردو، اسی جذباتیت اور گالی گلوچ کی وجہ سے آدھا ملک ہم گنوا بیٹھے، اب آدھا رہ گیا ہے، خدا کے لئے اس کی تو حفاظت کرلو! ہمارے معاشرے کے درمیان نفرتیں پھیلائی جارہی ہیں، اشتعال انگیز یاں کی جارہی ہیں، ایک دوسرے پر حملوں کی تیاریاں ہورہی ہیں، بلکہ حملے کئے جارہے ہیں، اور مسلمانوں کی جو وحدت ہے اس کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
دنیا میں سیاسی اختلافات کہاں نہیں ہوتے، لیکن ان اختلافات کو دشمنیوں میں تبدیل کردینا، عداوت میں تبدیل کردینا، ایک دوسرے کے خون کا پیاسا ہوجانا ہرگز درست نہیں۔ یاد رکھو! یہ سیاسی اختلافات کوئی کفر و اسلام کا معرکہ نہیں، لیکن ایک دوسرے پر جھوٹے الزامات لگانا، ایک دوسرے کو ایسے مطعون کرنا جیسے وہ اسلام کے دائرے سے ہی خارج ہے، وہ ہمارا مسلمان بھائی ہی نہیں ہے، افسوس ہے کہ سارا رمضان ہمارا اس آفت میں گزرا ہے، کیا یہ پاکستان اس لئے بنا تھا کہ ہم ایک دوسرے کے گلے کاٹیں۔
اختلاف کو اختلاف کی حد میں رکھیں، آپ کا جو سیاسی نظریہ ہو، اعتدال کو، سنجیدگی کو، متانت کو، سمجھ بوجھ کر اختیار کریں، اور جذباتیت کا خاتمہ کریں، ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں، ٹھنڈے دل و دماغ سے فیصلے کریں۔ ہم نے اگراپنا یہ رویہ تبدیل نہ کیا، تو پھر یاد رکھو کہ جس طرح اللہ تبارک وتعالی نے اپنی رحمت سے ہمیں پاکستان عطا فرمایا، خطرہ ہے کہ وہ کہیں ہم سے یہ نعمت چھین نہ لے، آدھا ملک ہم گنوا بیٹھے اسی جذباتیت کی وجہ سے، اسی گالی گلوچ کی وجہ سے، اسی ناسمجھی کی وجہ سے، اب آدھا رہ گیا ہے، خدا کے لئے اس کی تو حفاظت کرلو! جو بات زبان سے نکالو وہ سولہ آنے سچی ہونی چاہئے، دوسروں پر الزام تراشی سے پہلے سوچ لو کہ کیا تم اللہ کے پاس جاکر اس الزام کو ثابت کرسکو گے، اگر نہیں ثابت کرسکوگے تو جہنم کے انگارے تمہارا مقدر ہیں۔
اپنی زبان کو قابو میں لاؤ، اپنی سوچ کو قابو میں لاؤ، اپنی فکر کو قابو میں لاؤ، اعتدال پیدا کرو، سنجیدگی پیدا کرو، ایک دوسرے کی بات ٹھنڈے دل سے سمجھنے کا حوصلہ پیدا کرو۔ میں آپ حضرات سے اس عظیم اجتماع کے اندر یہ گزارش کرتا ہوں، یہ درخواست کرتا ہوں، ہاتھ جوڑ کر یہ کہتا ہوں کہ خدا کے لئے نفرتوں کے بیج بونا ختم کردو، نفرتوں کو اپنے دل سے نکال دو، اشتعال انگیز یاں ختم کردو، اور ٹھنڈے دل و دماغ سے اللہ سے رجوع کرکے مانگو کہ یا اللہ کون سا راستہ ہمارے لئے بہتر ہے، اور اسی پر عمل کرو۔
بشکریہ روزنامہ جنگ