یہ ان دنوں کی بات ہے جب ریحام خان صاحبہ، عمران خان صاحب کےنکاح میں تھیں۔ اس وقت مرحومہ بیگم نسیم ولی خان صاحبہ، اسفندیارولی خان سے ناراض تھیں اور انہوں نے اپنا الگ گروپ بنا رکھا تھا۔
بیگم نسیم ولی خان کی جماعت کے ترجمان ایک ٹاک شو میں فیاض الحسن چوہان کے ساتھ بیٹھے تھے۔ بیگم نسیم کے ترجمان نے پی ٹی آئی پر تنقید کی تو جواب میں فیاض الحسن چوہان نے بیگم نسیم ولی خان کی ذات پر تنقید کرنا شروع کر دی جس پر طیش میں آکر ان کےترجمان نے ریحام خان سے متعلق نازیبا الفاظ کا استعمال کیا۔
فیاض الحسن چوہان کے پاس اس وقت تک کوئی پارٹی عہدہ نہیں تھا لیکن یہ لوگ عمران خان کی خاطر ریحام خان کے بارے میں تنقید پر ایسے آگ بگولہ ہوجاتے تھے ۔چنانچہ گالم گلوچ اور دھمکیوں کے ساتھ اس شو کا اختتام ہوا۔چند روز بعد محترمہ ریحام خان انٹرویو کے لئے تشریف لائیں۔
میں نے ان سے اس پروگرام کا ذکر کیا جو خود انہوں نے بھی دیکھا تھا اور عرض کیا کہ اس روز ان کو جو گالی پڑی ، اس کے ذمہ دار اصلاً فیاض چوہان ہیں۔ موصوف اگر عمررسیدہ بیگم نسیم ولی خان کو گالی نہ دیتے تو جواب میں آپ کو گالی نہ پڑتی۔
اس لئے خان صاحب سے کہہ دیجئے کہ وہ اس طرح کے لوگوں کو اس طرح کی زبان کے استعمال سے منع کریں۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ خان صاحب سے اس پر بات کریں گی اور انہوں نے بات کی بھی لیکن چند روز نہیں گزرے تھے کہ اس زبان کے استعمال کے صلے میں فیاض چوہان کو عمران خان نے پارٹی عہدے سے نواز دیا۔
اب ایک اور واقعہ ملاحظہ کیجئے جب خان صاحب کے ساتھ ریحام خان کی شادی ہوگئی تو مبارک باد کا ایک ایس ایم ایس کرکے ہم نے ان سے متعلق زبان بند رکھی۔ اصول یہ تھا کہ وہ اگر گھریلو خاتون رہیں گی تو ہم ان کی ذات یا کردار کو موضوع بحث نہیں بنائیں گے لیکن کچھ عرصہ بعد انہوں نے مردان میں ایک حکومتی تقریب میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔
اس پر اگلے دن کالم لکھ کر میں نے متنبہ کیا کہ وہ سیاسی اور پارٹی سرگرمیوں میں شرکت سے گریز کریں اور اگر وہ خاتون خانہ رہیں گی تو ہم ان سے کوئی سروکار نہیں رکھیں گے لیکن وہ اگرسیاسی اور حکومتی معاملات کوئی کردار ادا کریں گی تو پھر مجبوراً ہمیں بھی ان پر تنقید کرنا پڑے گی۔
اب یہی اصول خاتونِ اول اور دیگر خواتین سے متعلق بھی ہے۔ مریم نواز صاحبہ چونکہ سیاست میں ہیں اس لئے روز ان پر تنقید ہوتی ہے اور شہباز گل جیسے لوگ ان کے لئے ایسے الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں جو ہم زبان پر لاسکتے ہیں اور نہ سپرد قلم کرسکتے ہیں ۔
شہباز گل، شبلی فراز اور اسی طرح کےدیگر افراد اقتدار ملنے کے بعد سامنے آئے ہیں اورہم عمران خان اور ان کے معاملات کو اس وقت سے قریب سے جانتے ہیں جب اس طرح کے لوگ دوسری دنیائوں میں گم تھے۔
پی ٹی آئی کے بانی جنرل سیکرٹری ڈاکٹر فاروق خان میرے بھائی تھے۔ پہلے صوبائی صدر اویس غنی اور ان کے جانشین نوابزادہ محسن علی خان بھی ہمارے دوست تھے۔ ان کے کرکٹ کے ہمسفروں نے بھی ہمیں بہت کچھ بتایا اور ان کے سیاست کے ساتھیوں نے بھی ۔
میرا سینہ بہت سے رازوں اور معاملات سے بھرا پڑا ہے لیکن میں اس دن سے اللّٰہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ ذاتی عناد کی بنا پر عمران خان یا ان کے اہل خانہ پر تنقید کروں۔ مجھے 2011سے وہ گالیاں نکلوا رہے ہیں اور میرے پاس وہ تمام تفصیلات موجود ہیں کہ سوشل میڈیا کی کون کونسی ٹیمیں تھیں اور کس کس سے منسلک تھیں۔
عارف علوی کا بیٹا کیا کر رہا تھا، افتخار درانی کی کیا ذمہ داری تھی، اس وقت سوشل میڈیا کے کون کونسے ایپس ہیں، انہیں کس طرح وزارتِ اطلاعات سے منسلک کردیا گیا ہے، کس کس کو کتنی تنخواہ مل رہی ہے اورشہباز گل جیسے لوگ ان کو کس طرح استعمال کررہے ہیں۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ میری ٹرولنگ میں کس کس کا کتنا حصہ تھا اور یہ بھی معلوم ہے کہ عاصمہ شیرازی کی ٹرولنگ میں عارف علوی کے بیٹے کی ٹیم کا کیا کردارہے اور شہباز گل کا کیا کردار ہے ؟
عمران خان کے گھریلو معاملات میں جس قدر پہلے عون چودھری دخیل تھے، اِن دنوں فیصل جاوید اور ان کے بھائی خرم جاوید جو خدمات انجام دے رہے ہیں ، وہ عون چودھری کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ عون چودھری کو اسی دن کیوں اور کس کے حکم پر بے دخل کردیا گیا جس دن عمران خان بطور وزیراعظم حلف اٹھارہے تھے۔
میں جہانگیر ترین کو فارغ کرنے کی اصل کہانی سے بھی واقف ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ زلفی بخاری کس طرح آئوٹ ہوئے اور اب پھر کس طرح ان ہورہے ہیں؟ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ چیئرمین نیب کی وڈیو وزیراعظم ہائوس سے کیسے ٹی وی پر چلوائی گئی لیکن ہم اپنی اقدار کے اسیر ہیں۔ دس سال تک غلیظ گالیاں برداشت کیں لیکن جواب میں کبھی عمران خان یا پی ٹی آئی کے کسی دوسرے رہنما کے معاملے میں ذاتیات پر نہیں اترا۔
ہم جیسے لوگ تواب اس معاملے میں یکسر لاپروا ہوگئے ہیں ۔ یوں جب میں مین اسٹریم میڈیا یا سوشل میڈیا میں اس طرح کے حاسدوں کو حسد کی آگ میں جلتا دیکھتا ہوں تو مجھے ایک لمحے کے لئے ان پر ترس آجاتا ہے۔ ہماری طرف سے ان کو کھلی اجازت ہے۔ جتنا زور لگا سکتے ہیں لگالیں۔ جتنے سرکاری وسائل خرچ کرسکتے ہیں، کرلیں۔
کردارکشی کے ساتھ اگر جیل وغیرہ کے حربے آزمانا چاہتے ہیں تو وہ بھی آزمالیں لیکن اب خواتین صحافیوں کی کردارکشی اور بلیک میلنگ کا سلسلہ حکومت اور پی ٹی آئی نے عمران خان کے ایما پر جس طرح شروع کیا ہے، وہ ناقابلِ برداشت ہے اور اس کی وجہ سے کسی بھی وقت کسی کا بھی پیمانہ صبر لبریز ہوسکتا ہے۔
جواب میں یہ سلسلہ عمران خان کے گھر تک دراز ہوسکتا ہے۔ خاتونِ اول کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے میاں کو روکیں کہ وہ میڈیا اور سیاست سے وابستہ خواتین کی کردار کشی کا سلسلہ رکوائیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ