ثابت ہو گیا کہ چئیرمین پی ٹی آئی جناب عمران خان صاحب نے آزادکشمیر میں آٹھ ماہ قبل جو حکومت بنائی تھی وہ غلط فیصلہ تھا۔ مقام افسوس ہے کہ مرکز اور پنجاب میں تماشہ دکھانے کے بعد عمران خان صاحب نے کشمیر کی پرسکون وادیوں کا رخ کیا ہے۔ ایک سال کے اندر اپنی ہی پارٹی کے وزیراعظم کو اس طرح سے تبدیل کرنا ایک عجیب قسم کی حرکت ہے ۔ کسی سطح پر نہ اس پر بحث مباحثہ ہوا نہ اس خواہش کا اظہار ہوا کہ وزیراعظم کو تبدیل کیا جائے۔ اچانک سے اعلان ہوا کہ عمران خان صاحب کے حکم کے تحت یہ تبدیلی لائی جا رہی ہے۔ اس کیلئے جو جواز فراہم کیا گیا وہ سننے کے قابل ہے کہ اپوزیشن ہمارے ارکان کو خریدنے کی کوشش کر رہی تھی۔ حالانکہ اہسا کچھ بھی نہ تھا اور اگر خریدوفروخت ہوئی ہے تو پی ٹی آئی نے ہی آپس میں کی ہے۔ یہ تبدیلی اس لحاظ سے مضحکہ خیز بھی ہے کہ سردار عبدالقیوم نیازی کو ہٹایا گیا ہے جو نہ صرف طویل پارلیمانی سیاست کا تجربہ رکھتے ہیں بلکہ حکومتوں میں وزارتوں کی ذمہ داریاں بھی نبھاہ چکے ہیں جبکہ نو وارد سردار تنویر الیاس بقول شخصے، اے ٹی ایم سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔
پتے کی بات یہ ہے کہ خان صاحب اگر آپ خود اپنے حقیقی کارکنان کو لے کر آگے بڑھتے اور مویشی منڈی سے یہ مال نہ خریدتے تو آج سارا پاکستان اس طرح کی تماشہ گاہ بننے سے بچ گیا ہوتا۔ آج برطانیہ کا روزنامہ گارڈین پڑھ لیں اس میں آپ کو اپنا چہرہ نظر آ جائیگا۔
اصولی طور پر پاکستان کے کسی وزیراعظم کا یہ حق نہیں بنتا کہ علاقائی حکومتوں کے معاملات میں اس طرح کی مداخلت کرے ۔ یہ ایک طرح سے عوام اور ان کے منتخب نمائندوں کے ساتھ توہین آمیز رویہ ہے ۔ اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ جیسے اس علاقے کے عوام اور سیاسی قیادت اپنے معاملات نبھانے کے قابل نہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ خان صاحب اکثر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ مغرب کو سب سے زیادہ جانتے ہیں ۔ تو پھر انہیں معلوم ہونا چاہیئے کہ برطانیہ کے چاروں ممالک کی علاقائی حکومتیں اپنے علاقائی معاملات، حکومتی کاروبار اور قانون سازی میں مکمل طور پر با اختیار ہیں ۔ آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی برطانوی وزیراعظم نے کسی بزدار کو اٹھا کر ویلز میں جا کر رکھ دیا ہو اور ایک محمود خان کو ناردرن آئرلینڈ میں نصب کر دیا ہو۔ سرکار آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ امریکہ کی پچاس ریاستیں ہیں اور ایسی با اختیار کہ جن ریاستوں نے مناسب سمجھا انہوں نے سزائے موت کو برقرار رکھا اور جن ریاستوں نے چاہا اسے ترک کر دیا۔ پورے مغرب میں حکومتوں کی کارگر اور مؤثر ترین شکل مقامی اور علاقائی حکومتیں ہیں جو عوام کو سہولتیں مہیا کرتی ہیں ۔ بوقت ضرورت ثانوی قانون سازی کر کے حکومتی نظام کو نافذ کرتی ہیں۔
اور سرکار حکومت چلانا بہت ہی بڑا کام ہے۔ یہ کسی اکیلے فرد کا کام نہیں ہے۔ یہ کام پوری قوم کی قابلیتوں صلاحیتوں اور ملکی ذرائع و وسائل کو مجتمع کر کے بروئے کار لایا جاتا ہےاور لگتا ہے آپ کو پتہ وتہ کچھ نہیں بس نشے میں بول رہے ہیں ۔
بات صرف اتنی ہی نہیں ہے بلکہ زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ خان صاحب کی اس طرح کی حرکتوں کی وجہ سے مسئلہ کشمیر کے کیس کو بین الاقوامی سطح پر شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ عالمی اداروں کے ایجنڈے پر کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ کشمیری عوام اس متنازعہ حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی آزادی کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس صورتحال کا تقاضہ ہے کہ پاکستان اپنی مطلوبہ غیر جانبداری کو برقرار رکھے۔
لیکن خان صاحب کو کون سمجھائے، اپنا کام ٹھیک طرح سے ہوا نہیں۔ ادھر ادھر لیڈری بکھیرتے ہوئے مرکز اور پنجاب سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور اب کشمیر میں شغل لگا لیا ہے۔ اس ساری مشق میں ایک بات بڑی واضح ہو کر سامنے آئی ہے کہ خان صاحب کے سیاسی داؤ پیچ ملکی یا قومی معاملات کے حل کیلئے نہیں ہوتے بلکہ کچھ مخصوص مقاصد کیلئے ہوتے ہیں۔ طریقہ کار یہ ہے کہ اہم انتظامی جگہ پر یا تو ایسے کمزور آدمی کو بٹھایا جائے جو اتنا کمزور ہو کہ آرام سے پاؤں کے نیچے بیٹھا رہے۔ اور یا پھر اتنا امیر ہو کہ کچھ خرچہ چلا سکے۔ جناب خان صاحب کی اس فلسفیانہ حکمت عملی کا ملک و قوم کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوا البتہ خود آپ جناب کو کوئی فائیدہ ہوا ہو تو وہ الگ بات ہے۔
جدوجہد آزادی کشمیر کا تقاضہ یہ تھا کہ پاکستان کی مقتدر سیاسی جماعتیں اپنی شاخیں کشمیر میں نہ قائم کرتیں ۔ یہ شرارت نواز شریف اور زرداری صاحبان نے شروع کی اور خان صاحب اسے پرلے درجے پر لے گئے۔ مقامی قیادت اور سیاسی جماعتوں کو غیر مؤثرکرکے آپ نے جو اقدامات کئے وہ جدجہد آزادی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکے ہیں۔ آپ نے گلگت بلتستان کو پاکستان کا ایک صوبہ بنانے کے اقدامات کئے اور آزاد کشمیر کے لئے بھی ایسے ہی اقدامات اٹھانے کے لئے ایک فضا بنانے کی کوشش کی۔ اپنے ہمنوا صابر شاکر کے ذریعے سے آزادکشمیر میں ریفرنڈم کروا کر اسے اپنا صوبہ بنانے کا ناجائز منصوبہ متعارف کروایا اور پھر ایک سرکاری ملازم سید سلیم گردیزی کے ذرہعے سے من گھڑت قصے کہانیاں لکھوا کر اس خیال کو تقویت دینے کی کوشش کی۔
یہ سب ایسے اقدامات ہیں جو کشمیریوں میں شدید بے چینی پیدا کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ ان غلط اقدامات کی وجہ سے کشمیر کی آزادی کی منزل کھوٹی ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ پاکستان سے اس رویے کی اہل کشمیر کو کبھی بھی توقع نہیں تھی اور نہ ہی یہ اقدامات قابل قبول ہیں ۔ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اہل کشمیر کے ساتھ عزت اور ہمدردی کا رویہ اپنائے۔