ماضی میں اگربعض اداروں سے کچھ غلطیاں سرزد ہوئی ہیں تو سیاستدان بھی دودھ کے دھلے ہوئے نظر نہیں آتے۔ یوں کہئے کہ دونوں طرف سے رنجشوں کو بڑھانے اور معاملات کو اُلجھانے کا مستقل سلسلہ جاری رہا، ایک دوسرے پر وار کئے جاتے رہے، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے حکمت عملیِ ترتیب پاتی رہی۔ یہ سیاستدان ہی تھے جنہوں نے ایک پارٹی کے خاتمے کے لئے خود مارشل لا کو خوش آمدید کہا بلکہ بڑھ چڑھ کے اس کے لئے راہیں ہموار کیں یعنی سیاستدان اپنے مخالف سیاستدان یا پارٹی کی حکومت برداشت نہیں کرسکتے لیکن غیر آئینی حکومت ضرور دیکھ سکتے ہیں۔ اس طرح کے غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر جمہوری معاملات سے ملک کی تاریخ پراگندہ ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے صرف ماضی میں جھانکتے رہنا ہے اور ماضی کی ایک دوسرے کے خلاف تقاریر اور بیانات کو منظر عام پر لا کر تلخی ٔ ایام کو بڑھانا ہے یا بطور قوم نئے سفر کا آغاز بھی کرنا ہے؟ ظاہر ہے ہمارا ماضی اتنا تابناک نہیں تھا۔ جب بھی گڑے مردے اُکھاڑے جائیں گے درد کی ٹیسیں بڑھیں گی، خون کے چھینٹے اڑیںگے، فضا میں آہیں ابھریں گی، بھروسے اور اعتماد کا لہو ہو گا۔ اس لئے اب ماضی کو پیٹنے کی بجائے آج کے دن، آج کے لمحے اور آج کے پیغام کی طرف بڑھنا ہے۔ آج کے دن نے ہمارے لئے روشنی اور نوید کا اہتمام کیا ہے اسے اپنے ذہن کی کھڑکیوں سے اپنے دل تک اترنے دینا ہے اور ایک نیا خواب دیکھنا ہے، ایک نئے سفرکا آغاز کرنا ہے کیونکہ زندگی عملی سفر سے ہی ممکن ہے، پرانے قصوں کو چھیڑ کر رات کا ایک پہر تو گزارا جا سکتا ہے لیکن زندگی مفلوج ہو جاتی ہے۔ اس کے لئے حرکت اور برکت ضروری ہے۔ آج ہمیں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اب ہمارے دفاعی اور آئینی ادارے اپنی حدود میں رہنے کا عزم کر چکے ہیں تو ہمیں بھی ان پر پورے صدقِ دل سے یقین کر لینا چاہئے اوراپنی ترجیحات کوطے کر لینی چاہئیں۔ سیاستدانوں کو مکمل جمہوری رویوں کی طرف بڑھنا چاہئے۔ اختلافِ رائے کوکُشادگی سے برداشت کرنا چاہئے۔ ظاہر ہے مختلف پارٹیوں کے مختلف دستور اور منشور ہیں، ان کے درمیان اختلافات بھی ہیں لیکن ان میں ایک سانجھی بات یہ ہے کہ وہ سب پاکستان کی خوشحالی اور ترقی کے لئے کوشاں ہیں۔ اس لئے جس ملک کی ترقی کا آپ نے عزم کر رکھا ہے اس کو اہمیت دیں، اس کو اپنی ترجیح بنائیں، اپنی ذاتی انا، اپنے ذاتی مفاد کو پس پشت ڈال دیں کیونکہ مقصد جب ملک کی ترقی ہو تو پھر ملک کو پہلی ترجیح دینی چاہئے، ذات کو نہیں۔ اس وقت ہمیں اپنی پاک فوج کے احترام اور ان کے فیصلے کو سیلوٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری تاریخ اتنی طویل نہیں ہے۔75 سال کی تاریخ میں انسان مختلف ادوار سے گزرتا ہے، غلطیاں کرتا ہے، سیکھتا ہے اور پھر کسی جگہ سے ایک مثبت سفر کا آغاز کرتا ہے، نئی نئی وجود میں آنے والی مملکت پر مختلف حوالوں سے وار ہوتے رہتے ہیں اور مسائل، معاملات الجھتے رہتے ہیں لیکن 75 سال کی تاریخ نے ہمارے اداروں اور لوگوں کے سامنے کچھ اسباق کے دیپ روشن کئے ہیں۔ اگر انہوں نے ان کی لو میں عمل شروع کر دیا ہے تو ہمیں ان پر ناز کرنا چاہئے، انہیں ویلکم کرنا چاہئے، ان کے ساتھ کھڑے ہونا چاہئے۔ پرانی غلطیوں کو دہرا کر آپس میں کشیدگی کو بڑھانا نہیں چاہئے کیونکہ پرانی غلطیوں میں کوئی بھی ایک فریق ذمہ دار نہیں نکلے گا اس میں سب کے دامن پر کچھ نہ کچھ داغ ضرور نظر آئیں گی۔
اس وقت ہمارا ملک پوری دنیا میں ایک عجیب اسٹیج پلے کا کردار ادا کر رہا ہے، ایک عجب تماشہ لگا ہوا ہے۔ وہ دنیا کہ جو آپ کے ایک موبائل ٹچ کی دوری پر ہے اس کے سامنے ہمارے عجیب و غریب راز کھلتے جا رہے ہیں اس لئے ہمیں ایک باشعور قوم بننے کے لئے عملی کردار ادا کرنا ہو گا اور خصوصاً اپنی نئی نسل کی اخلاقی تربیت کرنی ہو گی، آئین کی سربلندی اور اخلاقی قدروں کی پیروی کو نصاب کا حصہ بنانا ہو گا۔ جمہوریت کیا ہے؟ یہ بھی لوگوں کو بتانے کی ضرورت ہے۔ جمہوریت کا مطلب صرف میرا اقتدار نہیں ہے بلکہ جمہور کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنا ہے اور اکثریت کو حکومت میں شامل کرنا ہے۔ میرا خیال ہے جب تمام ادارے اپنی اپنی سمت میں چلنا شروع کرینگے تو یہ ملک معاشی حوالے سے بھی ترقی کرے گا، جمہوری اور سیاسی استحکام بھی اسے نصیب ہو گا اور یقیناً ہم اپنے اس ہدف کے حصول کی طرف بڑھیں گے جو قیامِ پاکستان کا مقصد تھا ہم اسے ایک ایسا عظیم ملک بنا پائیں گے جو عظیم لوگوں کی ترجمانی کرے گا، جو سماجی اور اخلاقی قدروں کے پیروکار ہوں گے اور دنیا میں انسانی حقوق اور انسانیت کیلئے آواز بلند کرینگے۔ زندگی مختصر سی ہے صاحب اقتدار تاریخ کی کتاب میں اپنا مثبت اندراج کرائیں گے تو ہمیشہ دعاؤں میں یاد رکھے جائیں گے۔ پاکستان زندہ باد۔
بشکریہ روزنامہ جنگ