سری نگر(کے پی آئی) کشمیری صحافی آصف سلطان کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت کوٹ بھلوال جیل جموں منتقل کردیا گیا ہے۔ضلع مجسٹریٹ سری نگر محمد اعجاز نے کشمیری صحافی آصف سلطان کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت کوٹ بھلوال جیل جموں منتقل کرنے کا حکم جاری کیا ہے ۔
پبلک سیفٹی ایکٹ قانون کے تحت کوئی بھی پولیس اہلکار کسی بھی شہری کو گھر یا باہر سے محض شک کی بنیاد پر گرفتار کر سکتا ہے اور گرفتار کیے گئے شہری کے اہل خانہ کو اطلاع نہیں دی جاتی نہ ہی اسے قانونی امداد حاصل کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔پی ایس اے کے تحت بغیر عدالتی سماعت کے کم سے کم دو سال تک کسی کو بھی بلا لحاظ عمر قید کیا جا سکتا ہے۔ متعدد کمسن بچوں کو بھی اب تک اس قانون کے تحت قید کیا جا چکا ہے۔
کشمیری صحافی آصف سلطان کو27 اگست 2018 کو گرفتار کیا گیا تھا۔ رواں ہفتے کے شروع میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون یو اے پی اے کے مقدمے میں ان کی درخواست ضمانت منظور ہوگئی تھی ۔آصف سلطان کو اس سے قبل سرینگر میں این آئی اے ایکٹ کے تحت ایک خصوصی عدالت نے تقریبا چار سال قید کے بعد ضمانت دی تھی۔ بعد میں انہیں سری نگر کے بٹہ مالو تھانے میں رکھا گیا تھا۔سری نگر کے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس راکیش بلوال نے تصدیق کی ہے کہ آصف سلطان کے خلاف پی ایس اے کے تحت مقدمہ درج کرکے انہیں جموں ڈویڑن کی کوٹ بھلوال جیل منتقل کردیا گیا ہے۔
سرینگر کے بٹہ مالو علاقے کے رہنے والے آصف سلطان ایک انگریزی جریدے ‘کشمیر نیریٹر’ کے ساتھ منسلک تھے۔ آصف کی شادی سنہ 2016 میں ہوئی تھی اور ان کی تقریبا چار سالہ بیٹی بھی ہے۔ آصف کو اکتوبر سنہ 2019 میں انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔گرفتاری سے قبل آصف سلطان نے حزب المجاہدین کے شہید کمانڈر برہان وانی پر ایک تحقیقی مضمون لکھا تھا اور ان کے کئی ساتھیوں کے ساتھ ملاقات کی تھی۔
باور کیا جاتا ہے کہ یہی مضمون ان کی گرفتاری کی وجہ بنا، ۔ آصف کی رہائی سے متعلق 400 شخصیات نے وزیر اعظم نریندر مودی کے نام ایک مکتوب بھی لکھا تھا۔قابل ذکر ہے کہ گزشتہ برس کلونی فانڈیشن فار جسٹس نے آصف کے مقدمے کی سماعت کی نگرانی کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ آصف سے قبل سرینگر کے مجسٹریٹ محمد اعجاز نے صحافی اور ‘دی کشمیر والا’ کے مدیر فہد شاہ پر بھی پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کیا ہے اور ان کو کواڑہ جیل میں قید کیا ہے