اسلام آباد(صباح نیوز)مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی فوج اختلاف رائے کی ہر آواز کو فوجی طاقت سے دبانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔22 سال قبل مارچ 2000 کو اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کے دورہ بھارت کے موقع پر چٹی سنگھ پورہ میں36 سکھوں کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔
اس قتل کا الزام پاکستان پر لگانے کے لیے 5 مقامی شہریوں کو گھروں سے اٹھا کر فوج نے قتل کر دیا اور الزام لگایا کہ یہ پاکستانی عسکریت پسند تھے جو سکھوں کے قتل میں ملوث تھے۔ بھارتی فوج کے اس اقدام کے خلاف احتجاج کرنے والے شہریوں پر فوج نے فائرنگ کر کے 9 افراد کو قتل کر دیا تھا۔
امریکہ کی پہلی خاتون وزیر خارجہ انجہانی میڈلین البرائٹ چار روز قبل انتقال کر گئیں ہیں۔ میڈلین البرائٹ نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا تھا کہ صدر کلنٹن کو چٹی سنگھ پورہ واقعے میں ہندو انتہا پسندوں کا ہاتھ ہونے کا شبہ تھا ۔
کلنٹن نے کہا تھا کہ اگر وہ بھارت کاسفر نہ کرتے تو چٹی سنگھ پورہ متاثرین زندہ ہوتے۔امریکہ کی پہلی خاتون وزیر خارجہ میڈلین البرائٹ چار روز قبل 84 سال کی عمر میں انتقال کر گئیں۔ کینسر کا شکارمیڈلین البرائٹ 23 مارچ کو زندگی کی بازی ہار گئیں، یعنی 22 سال قبل 20 مارچ 2000 کو چٹی سنگھ پورہ قتل عام کی برسی کے تین دن بعد ان کی موت ہوئی ۔20 مارچ 2000 کو امریکی صدر بل کلنٹن بھارت کے دورے پر تھے، جب کشمیر میں 36 سکھوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ سکھوں کا قتل اب بھی ایک معمہ ہے ۔
ہندوستانی صحافی گرپریت سنگھ نے ایک مضمون میں انکشاف کیا ہے کہ سکھوں کو قتل کرنے والے حملہ آوروں نے ہندوستانی فوج کی وردی پہنی ہوئی تھی، چٹی سنگھ پورہ گاں میں سکھوں کو قطار میں کھڑا کیا گیااور انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے، جہاں برسوں سے مسلح شورش جاری ہے۔ مزاحمت کاروں کا ایک دھڑا مکمل آزادی چاہتا ہے جبکہ دوسرا چاہتا ہے کہ کشمیر مسلم اکثریتی پاکستان میں ضم ہو جائے۔
بھارتی فوج کشمیر میں اختلاف رائے کی آواز کو دبانے کے لیے فوجی طاقت کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہے۔ پرامن ذرائع سے حق خودارادیت مانگنے والوں کو بھی نہیں بخشا جاتا۔20 مارچ 2000 کو پہلا موقع تھا جب کشمیر میں سکھ اقلیت کو اتنے پرتشدد طریقے سے نشانہ بنایا گیا۔ ہندوستانی حکومت، اس وقت کی حکمران دائیں بازو کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اس قتل کا الزام پاکستانی عسکریت پسندوں پر لگایا تھا۔ بھارتی حکومت کا استدلال یہ تھا کہ پاکستان کے حمایت یافتہ عسکریت پسند امریکی صدر کو اس قتل سے ایک پیغام دینا چاہتے ہیں۔
گرپریت سنگھ کے مطابق لیکن اس قتل عام کے دوران زندہ بچ جانے والوں نے کچھ غیر معمولی دیکھا تھا۔ حملہ آور کشمیری دکھائی نہیں دیتے تھے۔ وہ جنوبی ہندوستان کے لوگوں کی طرح نظر آتے تھے۔ جاتے وقت انہوں نے بھارت کے حق میں نعرے لگائے۔چٹی سنگھ پورہ میں36 سکھوں کے قتل کا معمہ حل کرنے کے لیے ، فوج نے بعد میں پانچ کشمیریوں کو گرفتار کیا اور انہیں پتھری بل کے علاقے میں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
فوج نے دعوی کیا کہ ہلاک ہونے والے افراد غیر ملکی پاکستانی عسکریت پسند تھے جو فائرنگ کے تبادلے میں مارے گئے، حالانکہ اس واقعے میں فوجیوں میں سے کوئی زخمی نہیں ہوا۔
گرپریت سنگھ لکھتے ہیں کہ فوج نے یہ بھی دعوی کیا تھا کہ وہ ایک اور عسکریت پسند کی مدد سے ان افراد کی شناخت کرنے میں کامیاب رہے، جسے گرفتار کیا گیا اور ان کے ٹھکانے کا پتہ لگانے میں فوج کی مدد کی۔ اس عسکریت پسند کو بعد میں اس وقت رہا کر دیا گیا جب حکام عدالتوں کے سامنے کوئی مصدقہ ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہے۔پتھری بل واقعے کے بعد کشمیر میں زبردست احتجاج کیا گیا ۔
مارے جانے والوں کے اہل خانہ کا کہنا تھاکہ وہ مقامی لوگ تھے جنہیں فوج نے فائرنگ سے پہلے گھروں سے اٹھایا تھا۔ لوگوں نے واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ اسی دوران تحقیقات کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین پر فوج نےBrakpora میں فائرنگ کر دی جس کے نیتجے میں مزید9 افراد مارے گئے ۔ مرنے والوں میں پتھری بل متاثرین بھی شامل تھے۔آخر کار، تحقیقات سے پتہ چلا کہ پتھری بل میں مارے جانے والے مقامی کشمیری تھے، مارے جانے والوں کی لاشیں قبروں سے نکال کر ان کے ڈی این اے نمونے حاصل کیے گئے تھے جبکہ لواحقین نے لاقشوں کی شناخت کی تھی اس کے باوجود بھارتی فوج نے ملوث فوجیوں کو قتل کے جرم سے بچانے کی کوشش کی۔
پتھری بل میں مارے جانے والوں کے ڈی این اے نمونوں سے چھیڑ چھاڑ کی گئی اور فرانزک رپورٹ کے اجرا میں تاخیر ہوئی۔امریکہ کی پہلی خاتون وزیر خارجہ انجہانی میڈلین البرائٹ نے اپنی کتاب “The Mighty and the Almighty” میں لکھا تھا کہ صدر کلنٹن کو چٹی سنگھ پورہ واقعے میں ہندو انتہا پسندوں کا ہاتھ ہونے کا شبہ تھا ۔ کلنٹن نے کہا تھا کہ اگر وہ بھارت کاسفر نہ کرتے تو چٹی سنگھ پورہ متاثرین زندہ ہوتے۔میڈلین البرائٹ کی اس گواہی پر بھارتی حکومت ناراض ہوگئی تھی حتی کہ کتاب کے پبلشرز نے نرمی اختیار کرتے ہوئے کتاب میں تبدیلیاں کرنے پر راضی ہوگئے تھے۔ تاہم، اس سے مزید سوالات پیدا ہوتے ہیں۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ بھارت کی خفیہ