وزارت خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم سوشل میڈیا پر پاکستان کے ذرائع ابلاغ کو جھوٹا کہنے کے لیے میدان میں آگئے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ اسی میڈیا نے انہیں اقتصادی ماہر کے طور پر پیش کرکے قومی شناخت دی ہے جس کے نتیجے میں انہیں وزارت خزانہ میں یہ عہدہ ملا ۔ ورنہ کتنے ہی ماہرین اقتصادیات موجود ہیں جو ان سے زیادہ قابل اوراپنے شعبے کے ماہر ہیں لیکن گم نام ہیں ۔ملک کی اقتصادی رہنمائی کے لیے انتہائی تجربہ کار ماہر اقتصادیات کی ضرورت ہے جیسے کہ ڈاکٹر حفیظ پاشا،ڈاکٹر عشرت حسین اورڈاکٹر اشفاق حسن خان ،جو اقتصادیات کے شعبے میں چوتھائی صدی سے زیادہ کا تجربہ رکھتے ہیں ۔مزمل اسلم کا اقتصادی میدان میں کام کرنے کا صرف دس سال کا تجربہ ہے ۔کامرس میں بی اے ،ماسٹرپبلک ایڈمنسٹریشن میں اور برطانیہ کی ایک غیر معروف یونیورسٹی ( یونیورسٹی آف باتھ)سے اقتصادیات میں ایم ایس سی کی سندلی ۔وہ پاکستانی میڈیا کو یہ سمجھانے چلے ہیں پاکستان کی اقتصادی حالت خراب نہیں ہے میڈیا جھوٹ بولتا ہے ۔اگر ملک کی اقتصادی حالت ٹھیک ہے تومشیر خزانہ آئی ایم ایف کے پاس کیوں گئے؟ ۔مزمل اسلم خود اپنی ویڈیومیں کہتے ہیں کہ عالمی سطح پر مہنگائی کی شرح 3اعشاریہ 9 فیصدہے۔ لیکن پاکستان میں یہ شرح 9 فیصد ہے یہ فرق کیوں ؟ ۔ پاکستان میں اس شرح کا ہی اطلاق ہونا چاہیے تھالیکن پاکستان میں کاروباری اورصنعتی سرگرمیوں کو موجودہ حکومت نے روک لگا دیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں فی کس آمدنی بھی 2021 میں کم ہوکر 1260 ڈالرز ہوگئی ہے۔مہنگائی کی وجہ سے پٹرولیم کی خریداری میں اتنی کمی آئی ہے کہ پٹرولیم کی برامدات میں 12 اعشاریہ 5 فیصد کمی آئی ہے یہ نہیں ہوا ہے کہ پاکستان نے پٹرولیم کے ذخائر کو بڑھایا ہو بلکہ افسوسناک حد تک طلب کم ہوگئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں کاروباری اور تجارتی سرگرمیوں میں خلل پڑا ہے ۔مزمل اسلم نے کہا ہے کہ اس سال ٹیکسوں کی مد میں پہلے سے زیادہ وصولی ہوئی ہے ۔ اگر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو دیکھا جائے تو یہ وصولی کم ہوئی ہے مہنگائی کی وجہ سے ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ ہوا ہے ایف بی آر نے کوئی نئے ہدف نہیں تلاش کیے ہیں بلکہ عوام سے مزید خون نچوڑا ہے ۔روپے کی قدر میں اضافہ ہو تو ان محصولات میں اضافے کی کوئی اہمیت ہوگی ۔حکومتی ترجمان مزمل اسلم کا تجزیہ دراصل آئی ایم ایف کا تجزیہ ہے جس کے بارے میں بی بی سی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی جانب سے جاری کیے گئے ’اکنامک آؤٹ لُک‘ میں موجودہ مالی سال میں پاکستان میں مہنگائی اور بیروزگاری کی شرح کم ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔تاہم آئی ایم ایف کی جانب سے ملک کے کرنٹ اکاونٹ خسارہ بڑھنے کی پیش گوئی کی گئی ہے تو دوسری جانب موجودہ مالی سال میں ملکی ترقی کی شرح نمو چار فیصد تک رہنے کی توقع کا اظہار کیا گیا ہے۔عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے پاکستان سمیت دنیا کی بیشتر معیشتوں کے بارے میں پیش گوئی اس وقت سامنے آئی ہے جب پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ اپنے معطل شدہ پروگرام کی بحالی کے لیے مذاکرات کرنے جا رہا ہے تاکہ اس کے تحت ملک کو ایک ارب ڈالر قرض کی قسط جاری ہو سکے جو آئی ایم ایف کے پاکستان کے لیے ’ایکسٹنڈڈ فنانسنگ فیسلٹی‘ پروگرام کے تحت مذاکرات کی کامیابی کی صورت میں جاری ہو گی۔پاکستان کے معاشی اعشاریوں کے بارے میں آئی ایم ایف کی پیش گوئی بہتری کی طرف اشارہ کرتی ہے جن میں رواں برس بیروزگاری اور مہنگائی میں کمی ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔بی بی سی مزید کہتا ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے بیروزگاری اور مہنگائی کی شرح میں کمی کی پیش گوئی سے پاکستان میں آزاد معاشی ماہرین اتفاق نہیں کرتے جو ان کے نزدیک خام بنیادوں اور اندازوں پر کی گئی ہے۔پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے کہ ان کے نزدیک مہنگائی کی شرح 11 سے 12 فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔ڈاکٹر پاشا نے کہا اگرچہ حکومت کہتی ہے کہ بیروزگاری کی شرح پانچ سے چھ فیصد ہے تاہم غیر جانبدارانہ تخمینے کے مطابق اس کی شرح 12 سے 13 فیصد ہے۔ انہوں نے شرح نمو کے بھی تین سے ساڑھے تین فیصد تک بڑھنے کی توقع کا دعویٰ کیا۔ڈاکٹر پاشا کے مطابق آئی ایم ایف کے تخمینے میں بہت سارے ’نقائص‘ ہیں جس کی وجہ صحیح ڈیٹا کی بجائے اندازوں پر کی گئی پیش گوئی کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گیس، بجلی اور اجناس کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کے رجحان کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ آئی ایم ایف کا مہنگائی کم ہونے کا اندازہ ٹھیک ہو گا۔ ان کے مطابق پاکستان میں بیروزگاری کی شرح جانچنے کا بھی کوئی ایسا طریقہ کار موجود نہیں ہے جس کی بنیاد پر کوئی تخمینہ دیا جا سکے۔ماہر معیشت اور وزارت خزانہ کے سابق مشیر ڈاکٹر اشفاق حسن بھی آئی ایم ایف کے ان اندازوں سے اتفاق نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ مالی سال میں مہنگائی کی شرح دس فیصد سے اوپر رہنے کی توقع ہے۔ ان کے مطابق پاکستان میں بیروزگاری کی شرح معلوم کرنے کا کوئی پیمانہ موجود نہیں ہے۔ڈاکٹر اشفاق حسن نے کہا کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت روپے کی قیمت گرائی گئی ہے جس کی وجہ پاکستان پر بیرونی قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے۔ماہر معیشت ڈاکٹر فرخ سلیم کہتے ہیں کہ مہنگائی ختم ہونے والی نہیں ہے بلکہ ابھی تو اس میں اضافے کا آغاز ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ چار چیزوں کی قیمتیں لے لیں تو پتہ چل جائے گا کہ مہنگائی کتنی بڑھے گی۔انہوں نے کہا کہ پام آئل کی قیمت 600 ڈالر سے 1000 ڈالر فی ٹن چلی گئی ہے، ایل این جی کا نرخ دس ڈالر سے پچاس ڈالر، خام تیل کی قیمت 37 ڈالر سے 84 ڈالر فی بیرل چلی گئی اور کوئلے کی قیمت 60 ڈالر سے 250 ڈالر فی ٹن پر پہنچ چکی ہے اور ان قیمتوں میں اضافہ جاری ہے۔ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق آئی ایم ایف کے پاس پاکستان کی معیشت کے بارے میں ڈیٹا اکٹھا کرنے کی کوئی خاص تیکنیکی صلاحیت نہیں ہے اس کی وجہ سے اس کے معیشت کے بارے میں تخمینے اور اندازے ’نقائص سے بھرپور ہوتے ہیں‘۔ڈاکٹر اشفاق حسن نے بھی اس بات سے اتفاق کیا اور انہوں نے دعویٰ کیا کہ جب وہ وزارت خزانہ میں تھے اور آئی ایم ایف سے مذاکرات ہوتے تھے تو وہ جی ڈی پی اورمحصولات کے جو اعداد وشمار دے دیتے آئی ایم ایف اسے قبول کر لیتا کیونکہ اس کے پاس پاکستان کی معیشت کو جانچنے کے لیے تیکنیکی صلاحیت موجود نہیں ہے اور وہ اندازوں پر اپنی رائے دیتا ہے۔پاکستان کی معیشت کو تباہی کے گڑھے تک پہنچانےکا الزام موجودہ حکومت سابقہ حکومتوں کو دیتی ہے لیکن خود وزارت خزانہ کا ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ پیپلزپارٹی کے آخری دور اقتدار میں 2008-2013 کے دوران ملک کا جی ڈی پی 36 فیصد بڑھ گیا تھا، جب کہ ن لیگ کے دور حکومت 2013-18 میں بھی معیشت میں 36 فیصد اضافہ ہوا لیکن 2018-20 کے دوران اس میں 16 فیصد کمی واقع ہوئی۔یہی وجہ ہے کہ 2018 میں فی کس آمدنی 1482 ڈالرز تھی وہ 2020 میں کم ہوکر 1194 ڈالرز ہوگئی تھی، جب کہ آئی ایم ایف کے تخمینے کے مطابق 2021 میں فی کس آمدنی 1260 ڈالرز ہے۔ اس کے علاوہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں بڑی کمی واقع ہوئی ہے اور 6 نومبر، 2021 کو ایک ڈالر کی قیمت 171.71 روپے ہے۔ جب کہ 2018 میں یہ 109.8444 روپے کا تھا۔ یہ بھی مہنگائی میں اضافے کی بڑی وجہ بنی ہے کیوں کہ ملک کی معیشت کا بڑا دارومدار درآمدات پر بھی ہے۔ اعلیٰ سطح پر غلط فیصلے اور بری طرز حکومت سامنے آئی پہلے چینی کی برآمدات کا فیصلہ پھر اس کی درآمدات، یہی کام گندم اور آٹے کے ساتھ ہوا، اسی طرح 1 ارب ڈالرز کی کپاس درآمد کرنے کے نتیجے میں روپے کی قدر میں کمی واقع ہوئی۔ لیکن حکومت عالمی سطح پر مہنگائی کو پاکستان میں مہنگائی کی بنیاد بتا رہی ہے جو کہ درست نہیں ہے۔ آئی ایم ایف تخمینے کے مطابق، امریکا میں 2021 کے دوران فی کس آمدنی 68308 ڈالرز رہے گی جب کہ مہنگائی 5.3 فیصد رہے گی اور پٹرول فی لیٹر 0.89 ڈالرز رہے گا۔ اس طرح امریکی شہریوں کا طرز زندگی اور قوت خرید پاکستانیوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ برطانیہ کے حوالے سے آئی ایم ایف تخمینے کے مطابق فی کس آمدنی 2021 میں 46344 ڈالرز رہے گی اور مہنگائی 3.2 فیصد ، اس کے علاوہ برطانیہ میں موٹر گیسولین کی قیمت 1.4 ڈالرز فی لیٹر رہے گی۔ پاکستان میں مہنگائی دوہرے ہندسے میں داخل ہونے کا بھی اندیشہ ہے کیوں کہ پٹرولیم لیوی 10 روپے فی لیٹر سے بڑھا کر 15 روپے فی لیٹر کی جاسکتی ہے۔ جب کہ حکومت گیس اور بجلی کی قیمتوں میں بھی اضافے کا سوچ رہی ہے۔ یہ سب مہنگائی کے طوفان کا سبب بنے گا۔ بھارت کے حوالے سے آئی ایم ایف کے تخمینے کے مطابق فی کس آمدنی 2021 میں 2191 ڈالرز رہے گی اور مہنگائی 5.3 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ستمبر، 2021 میں بھارت میں غذائی مہنگائی صفر ریکارڈ کی گئی۔ جب کہ پٹرول کی قیمت 103.97 بھارتی روپے فی لیٹر تھی۔ بھارت کی فی کس آمدنی اور مہنگائی کو مدنظر رکھیں تو پٹرول کی قیمتیں بھارتی شہریوں کی قوت خرید کے اندر ہیں۔ بھارتی کرنسی میں ایک ڈالر 74 روپے کا ہے۔ بنگلادیش کی کرنسی بھی مضبوط ہوگئی ہے اور ایک ٹکہ اب پاکستان کے دو روپے کے برابر ہے۔ بنگلادیش میں فی الوقت ایک لیٹر پٹرول کی قیمت 89 ٹکہ ہے اور ایک امریکی ڈالر 87.700 ٹکہ کا ہے۔ بنگلادیش میں مہنگائی 5.5 فیصد ہے۔ بنگلادیش میں فی کس آمدنی 2554 ڈالرز ہے۔ پی ٹی آئی کے تین سالہ دور حکومت میں مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہوا ہے اور پاکستانی تین سال سے مسلسل مشکل زندگی گزار رہے ہیں۔ معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر اکرام الحق نے حکومت کی جانب سے ملک میں پٹرول کی خاص کر خطے کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں کم قیمت کے دعوے کو ان ممالک میں مہنگائی سے موازنے کو غلط قرار دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت یہ موازنہ صرف پیٹرول کی قیمت پر کیوں کر رہی ہے؟’حکومت کو یہ موازنہ تمام روزمرہ استعمال کی چیزوں پر کرنا چاہیے تو پھر پتا چلے گا کہ پاکستان میں اس وقت مہنگائی کی کیا بلند ترین سطح ہے اور اس کے مقابلے میں دوسرے ملک خاص کر خطے کے ملک پاکستان سے بہتر پوزیشن میں ہیں۔انہوں نے کہا ’حکومت کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ اس وقت چینی اور گندم کی قیمت بھارت اور بنگلہ دیش میں کس سطح پر ہے اور ہم اس وقت کس قدر مہنگی گندم اور چینی خریدنے پر مجبور ہیں۔‘ڈاکٹر اکرام نے کہا یہ موازنہ اس لیے بھی صحیح نہیں ہے کہ صرف پٹرول کی قیمت کو الگ سے نہیں دیکھا جاتا بلکہ اسے بحیثیت مجموعی معیشت کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ’ضرورت کی چیزوں کی خریداری کا تعلق قوت خرید سے ہے۔ پاکستان میں قوت خرید کم ہوئی ہے جس کا تعلق ملک کی فی کس آمدن سے ہے۔ پاکستان کی فی کس آمدن کا موازنہ بنگلہ دیش اور بھارت سے کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ پاکستان اس لحاظ سے دونوں ممالک سے کتنا پیچھے ہے۔
Load/Hide Comments