عمران خان نے بالآخر، جن کو چور ڈاکو کہہ کر بات کرتے بلکہ ہاتھ ملانا پسند نہیں کرتے تھے، ان کے ساتھ مذاکرات کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ بات جو عمران خان اور تحریک انصاف کو کئی سال سے سمجھائی جا رہی تھی وہ ایسے وقت میں سمجھ آئی جب پی ٹی آئی سیاسی طور پر مقبولیت کے باوجود بہت کمزور ہو چکی۔ سب کچھ کر لیا لیکن جو چال چلی وہ الٹی ہی پڑی۔ اب جب عمران خان اور تحریک انصاف مذاکرات کرنے کیلئے جتن کرتے نظر آ رہے ہیں دوسری طرف یعنی حکومت میں شامل ن لیگ اور پیپلز پارٹی نخرے دکھا رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ عمران خان پر اعتبار کون کرے؟ بانی چیئرمین کی گارنٹی کون دے گا؟ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شرائط کے ساتھ بات چیت کرنے کا کیا جواز ہے؟ اصل میں عمران خان ، جنہوں نے ابھی تک ایک ہی رٹ لگائے رکھی کہ بات چیت ہو گی توصرف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ، ان کوپہلے اپنی اور اپنی پارٹی کی مشکلات کو سمجھنا ہو گا اور یہ دیکھنا ہو گا کہ آخر ان سے کیا کیا غلطیاں ہوئیں کہ مقبولیت کے باوجود وہ جیل میں اور ان کی پارٹی مشکلات میں سے نکل نہیں رہی۔ اگر خان صاحب چاہتے ہیں کہ آنے والے وقت میں ان کیلئے سیاست کا رستہ ہموار ہو اور مشکلات کم ہونا شروع ہوں تو انہیں اپنے طرز سیاست کو بدلنا ہو گا۔ ان کو منفی اور الزامات کی سیاست سے دوری اختیار کرنا پڑے گی اور سب سے اہم یہ کہ خود عمران خان کو، اپنی سیاسی جماعت اور خصوصا سوشل میڈیا کو فوج اور فوجی قیادت کے خلاف پروپیگنڈا سے سختی سے روکنا ہو گا۔ تحریک انصاف کے حالیہ اسلام آباد مارچ سے متعلق گولیاں چلنے اور پہلے سیکڑوں اور پھر بارہ ورکرز کی شہادت (جس کو حکومت ماننیکیلئے تیار نہیں) کے الزامات بھی بغیر کسی ثبوت کے فوج پر لگائے گئے جب کہ فوج کی ذمہ داری صرف اسلام آباد کی اہم عمارتوں کی حفاظت تک محدود تھی۔ اگر ایک طرف تحریک انصاف کے چند رہنمائوں نے اشارتا یا کھل کر یہ الزام لگایا تو دوسری طرف پارٹی کے سوشل میڈیا اور بیرون ملک حمایتوں نے فوج مخالف پروپیگنڈا چلایا جس کو نہ روکا گیا اور نہ ہی اس کی عمران خان کی طرف سے کوئی مذمت کی گئی۔عمران خان اگر معنی خیز مذاکرات چاہتے ہیں، اگر اپنی مشکلات کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو پھر انہیں سب سے پہلے اپنی گزشتہ دو ڈھائی سال کی فوج اور فوجی قیادت کے خلاف سیاست کا جائزہ لینا ہو گا۔ انہیں یہ سوچنا سمجھنا ہو گا کہ ان کے فوج اور فوجی قیادت کے خلاف بیانیے نے کس طرح ان کے ووٹرز سپورٹرز میں فوج کے خلاف نفرت پیدا کی اور جس کا ایک نتیجہ 9مئی کی صورت میں دنیا نے دیکھا۔ اگر فوج اور فوجی قیادت کے خلاف بات کریں گے، اگر ان پر ہر قسم کے الزامات لگائیں گے، ان کے خلاف سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا چلائیں گے،بیرون ملک اپنے حمایتوں کے ذریعے فوج اور فوجی قیادت کو بدنام کرتے رہیں گے تو پھر ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے مذاکرات اگر ہو بھی گئے تو ایسے مذاکرات کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ میں پہلے بھی کہہ چکا اور اب بھی کہہ رہا ہوں کہ خان صاحب کو پہلے خود اور پھر اپنے رہنمائوں اور سوشل میڈیا کو سختی سے فوج اور فوجی قیادت کی مخالفت سے روکنا ہو گا۔ اگر ایسا کریں گے تو آسانیاں پیدا ہوں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ نفرت اور تقسیم کی سیاست کو چھوڑ کر اپنی مقبولیت کو سب کو جوڑنیکیلئے استعمال کریں۔ دوسروں پر الزامات سے باز رہیں اور اپنے سوشل میڈیا اور ووٹرز سپورٹرز کو اس نفرت، گالم گلوچ اور منفی سیاست سے باہر نکالیں جس نے تحریک انصاف کے بارے میں انتشاری ٹولے کا تاثر پیدا کیا۔ اپنی سیاست اور اپنے مطالبات کے لیے کوئی ایسا کام نہ کریں جس کا نقصان پاکستان یا پاکستان کی معیشت کو ہو۔ مذاکرات کرنے ہیں تو سول نافرمانی کی کال دینے کی کیا ضرورت تھی؟ سول نافرمانی جس کا تجربہ ماضی میں تحریک انصاف کر چکی اور ناکامی اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ،اگر یہ کامیاب بھی ہوتی ہے تو اس کا نقصان تو پاکستان کو ہی ہو گا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ