خالد غیاث کا اداس لاہور … تحریر : ڈاکٹر صغرا صدف


احساس میں رچے لوگ اچانک بچھڑ جائیں تو دل کے صحن میں صفِ ماتم بِچھ جاتی ہے۔ فطری حساسیت کا یہ عالم ہے کہ مجھ سے تکلف کے بناوٹی رشتے نہ بنائے جاتے ہیں نہ نبھائے ، جو لوگ بھی میرے حلقہ احباب کی فہرست میں شامل ہوتے ہیں وہ میرے احساس سے جڑ جاتے ہیں، ان کے دکھ سکھ مجھ پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔اسلئے وہ مرے حرفِ دعا میں سمائے رہتے ہیں۔خالد غیاث بھی ایسی ہی ایک دلفریب شخصیت کا نام ہے جن سے محبت اور عقیدت کا دعوی ہر ملاقات کے بعد مزید مستحکم ہوا۔ شعبہ فلسفہ میں تعلیم کے دوران ڈاکٹر نعیم احمد، ڈاکٹر ساجد علی اور ڈاکٹر غزالہ عرفان کے توسط سے ایسی بڑی علمی ، ادبی اورثقافتی شخصیات سے رابطہ ہوا جن سے مکالمے نے فکر و نظر کو نئے زاویوں سے متعارف کروایا ،ایسی ہی کسی محفل میں خالد غیاث سے آمنا سامنا ہوا ، تعارف کے بعد تعلق کی ایسی گرہ بندھی جو کبھی نہ کھل سکی نہ ٹوٹ سکی۔خالد غیاث کی محفل میں بیٹھنا ہمیشہ خوشگواریت کا باعث رہا۔وہ تنہا فرد اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ لاہور میں ہونیوالی ثقافتی محفلوں میں اہتمام سے شرکت کرتے اور دل کھول کر فنکاروں ور گلوکاروں کو داد دیتے۔ گزشتہ برس شدید دھند میں عزم الحق عزمی کے اعزاز میں منعقد شام کو میرے گھر بھی تشریف لائے اور پھر کئی روز اس محفل کی باتیں کرتے رہے۔پاکستان ٹیلی ویژن میں اہم عہدے پر فرائض سر انجام دیتے ہوئے ادب و ثقافت کے پیامبر بن کر سامنے آئے،عمر بھر محبتیں اکٹھی کیں اور تقسیم کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔کئی نئے لوگوں کو متعارف کروایا،کئی کی ٹیلی ویژن تک رسائی کا وسیلہ بنے ،کئی کا حوصلہ بندھا کر ان کی صلاحیتوں کو جگمگایا ،وہ ایک ڈکشنری کی مانند تھے جن کے پاس ہر فرد کی صلاحیتوں ،کارناموں اور سفر کے قصے محفوظ تھے۔جب بھی کسی کا تذکرہ چھڑتا بڑی محبت سے بات کرتے ،کتاب سے محبت رکھتے تھے۔جو وقت گھر میں گزارتے شاید وہ مطالعہ میں ہی گزرتا ہوگا کیونکہ اکثر نئی کتب پر عمدہ تبصرہ سننے کو ملتا۔ایک بار لائوئج میں شفق احسان لاشاری کی کتاب کا سرورق دکھا کر کہا، یہ کتاب پڑھو،میں نے کہا کتاب ادھار دے دیں پڑھ کر واپس کردوں گی کہنے لگے کامران لاشاری کو فون کرو ،اسکی ہمشیرہ ہے اور پھر ایسا ہی ہوا۔اس حوالے سے مجھے ایک عمدہ دوست مل گئی۔مجھے خالد غیاث سے تفصیلی بحث و مباحثے کا موقع جم خانہ کلب کے چاندنی لاونج میں ہی ملا۔صبح دس گیارہ بجے چاندنی لاونج کی انتظامیہ کاونٹر کے قریب پہلی میز پر براجمان ہو جاتے۔ ممبران دوست آتے جاتے رہتے۔چائے ، جوس ، آئس کریم کافی کا دور چلتا رہتا ،ڈنر کے بعد گھر آتے۔جم خانہ کاا سٹاف بھی ان سے بڑی محبت اور اپنائیت کا اظہار کرتا اور وہ بھی بچوں کی طرح ان کا احساس کرتے تھے۔کئی دفعہ میں جاتی تو خالد صاحب اکیلے بیٹھے اونگھ رہے ہوتے تھے۔ میں اکثر مال روڈ سے گزرتے یہ سوچ کر لائونج کا چکر لگا لیتی کہ وہاں خالد غیاث صاحب بیٹھے ہوں گے تھوڑی دیر ان سے بات کروں گی۔

ان کی محفل میں علم و ادب ،صحافت اور ثقافت کے دلدادہ ریٹائرڈ لوگ ہوتے تھے، کئی بار ایسی بحث بھی چھڑ جاتی جو خالد غیاث کے خیالات سے بالکل ہٹ کر ہوتی تھی تو وہ گفتگو میں حصہ نہیں لیتے تھے بلکہ خاموش بیٹھے رہتے تھے۔ کئی بار ایسی تکراریہ گفتگو میں میرے کہنے سے پہلے ہی وہ مجھے آرام سے دوسری میز پر جا کر بیٹھنے کا کہہ دیتے کیونکہ وہ سمجھ جاتے تھے کہ میں اچھا محسوس نہیں کر رہی۔ لاہور تو سب کے دل میں دھڑکتا ہے مگر وہ لاہور کی محفلوں، میلوں اور رنگوں کے دلدار اور راوی تھے۔پچھلے دو تین مہینے کسی وجہ سے میں چاندنی لاونج نہ جا سکی۔چند دن پہلے بیٹی کے ساتھ وہاں گئی،کافی دیر بیٹھی رہی مگر وہ پہلے والی میز بالکل ویران پڑی تھی، عملے سے بھی نہ پوچھا، مگر خالد غیاث صاحب کی کمی عجیب طرح سے چبھ رہی تھی میں نے سوچا کہیں بیمار نہ ہوں ورنہ وہ تو کبھی ناغہ نہیں کرتے تھے۔سوچا فون کروں گی پھر بھول گئی۔کل عزم الحق عزمی نے پوچھا، ڈاکٹر آپ کو پتہ ہے خالد غیاث صاحب کی وفات ہو چکی ہے۔ یہ جملہ ایک ہتھوڑے کی طرح میرے احساس پر برسا۔ میں خاموش ہوگئی۔ ایک اتنی مہربان ،حبیب اور دلنواز شخصیت کی اپنائیت بھری مسیحائی چھن جانے کا غم دل پر طاری ہے۔ لیکن موت اچھے اور برے میں کب تمیز کرتی ہے وہ ہمارے احساس کی کب پرواکرتی ہے،جب جی چاہتا ہے سوئے جاگتے دوستوں کو کھینچ کر لے جاتی ہے۔ اک الوداعی ملاقات کا موقع بھی نہیں دیتی۔ خالد غیاث کے اچانک جانیکی خبر میں اطمینان کا پہلو بھی ہے کہ انہیں شدید بیمار ہوکر لاچاری کی زندگی نہیں گزارنی پڑی۔ وہ چلتے پھرتے ،ہنستے مسکراتے اور خوشیاں بانٹتے اس دنیا سے چلے گئے خدا انہیں وہاں بھی خوش و خرم رکھے۔ شاید کوئی انہیں بتا سکے کہ لاہور کا آنگن انکے بغیر اداس ہے، دوستوں کی محفل بکھر چکی ہے، اور ہم ہمیشہ انکی کمی محسوس کرتے رہیں گے، ان کیلئے دعا کرتے رہیں گے کہ یہی ہمارے بس میں ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ