وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے مسکرا کر بولا ’’آپ نے یقینا مجھے پہچانا نہیں ہو گا‘ میں آپ کا شاگرد رہا ہوں‘‘ میں نے بھی مسکرا کر جواب دیا‘ میں معافی چاہتا ہوں‘ میں نے آپ کو واقعی نہیں پہچانا‘‘ وہ ہنس کر بولا ’’یہ میرے بچپن کی بات ہے‘ میں نالائق اسٹوڈنٹ تھا‘ ہمیں اسکول سے چھٹیاں تھیں۔
آپ نے شہر میں فری کوچنگ سینٹر کھولا تھا‘ آپ سارا دن نالائق اسٹوڈنٹس کو پڑھاتے رہتے تھے‘ میں بھی ان اسٹوڈنٹس میں شامل تھا‘‘ میں نے ذہن پر زور دیا اور مجھے اچانک یاد آ گیا‘ میں کالج کے دور میں لالہ موسیٰ میں اپنے چند دوستوں کے ساتھ کوچنگ سینٹر چلاتا تھا۔
ہمیں ایک پرائیویٹ اسکول نے چھٹیوں میں ایک کلاس روم دے دیا تھا‘ ہم شہر میں بینر لگا دیتے تھے‘ طالب علم آتے تھے اور ہم انھیں سارا دن پڑھاتے رہتے تھے‘ میں اچھا استاد نہیں تھا لہٰذا میں سارا دن بچوں کو کہانیاں سناتا رہتا تھا‘ بچے ہمیشہ کہانیوں میں دل چسپی لیتے ہیں‘ وہ سارا دن میرے گرد بیٹھے رہتے تھے۔
یہ سلسلہ چند سال چلا لیکن پھر میں یونیورسٹی شفٹ ہو گیا اور یوں یہ پروجیکٹ ختم ہو گیا‘ میں نے اس دور کو یاد کیا‘ ہنسا اور اس سے پوچھا ’’آپ کس سیشن میں تھے؟‘‘ اس نے قہقہہ لگا کر جواب دیا ’’سر میں صرف تین دن کے لیے آپ کی کلاس میں آیا تھا لیکن ان تین دنوں نے میری زندگی بدل دی‘‘
میں حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگا‘ انسان کی فطرت ہے جب کوئی شخص اس کی تعریف کرتا ہے تو وہ تن من سے خوش ہو جاتا ہے‘ مجھے بھی اپنی اہمیت کا احساس ہوا اور میرا سینہ فخر سے پھول گیا‘ وہ تھوڑی دیر رک کر بولا ’’آپ نے ہمیں شیکسپیئر کے بارے میں بتایا تھا اور آخر میں کہا تھا انگریزی زبان کے سب سے بڑے ادیب‘ شاعر اور ڈرامہ نگار کے پاس صرف اڑھائی سو لفظ تھے اور یہ ان اڑھائی سو لفظوں کے ساتھ انگریزی دنیا کا سب سے بڑا شاعر اور ادیب بن گیا۔
آپ لوگ اگر روزانہ صرف ایک نیا لفظ سیکھ لیں یا انگریزی کا ایک فقرہ روز یاد کر لیں تو آپ مہینے میں تیس لفظ یا فقرے سیکھ جائیں گے اور سال میں 365 یوں آپ شیکسپیئر سے بھی آگے نکل جائیں گے‘‘ وہ رکا اور پھر ہنس کر بولا‘ آپ کے ہاتھ میں ڈان اخبار تھا‘ آپ نے اس کی ہیڈ لائین سرکل کی اور وہ سرکل دکھا کر کہا ’’آپ کو صرف ایک اخبار خریدنا ہے‘ وہ پورا پڑھنا ہے‘ مشکل فقرے کسی نوٹ بک میں لکھنے ہیں اور پھر انھیں یاد کرنا ہے‘ آپ روز نیا فقرہ یاد کریں اور پچھلے فقرے دہراتے چلے جائیں‘ آپ ایک سال میں پورے انگریزی دان بن جائیں گے‘‘۔
آپ کی بات میرے دل کو لگی‘ کلاس کے آخر میں آپ کا وہ اخبار میں گھر لے گیا‘ نوٹ بک خریدی‘ ہیڈ لائین کے مشکل الفاظ اور فقرے اس میں لکھے اور انھیں زبانی یاد کرنے لگا‘ آپ یقین کریں رات تک میں دس فقرے یاد کر گیا تھا۔
اگلے دن میں نے پچھلے فقرے دہرائے اور دس نئے فقرے سیکھ لیے‘ یہ بھی ہو گیا‘ میں اب روز نئے فقرے لکھتا تھا‘ انھیں یاد کرتا تھا اور پرانے دوہراتا جاتا تھا‘ میں شروع میں دس فقرے یاد کرتا تھا لیکن پھر میری اسپیڈ کم ہو گئی‘ میں دس سے پانچ پر آیا اور پھر روزانہ ایک فقرہ سیکھنے لگا۔
لیکن اس وقت تک میرا لینگوئج بینک بڑا ہو چکا تھا‘ میری ووکیبلری بھی بڑھ چکی تھی اور میرے پاس دو اڑھائی سو اچھے فقرے بھی جمع ہو چکے تھے‘ میں جب یہ فقرے کلاس میں دوہراتا تھا یا انگریزی کے مضامین میں لکھتا تھا تو میرے کلاس فیلوز کے ساتھ ساتھ استاد بھی حیران ہو جاتے تھے‘
اس کام یابی نے مجھے حوصلہ دیا اور میں آگے بڑھتا چلا گیا ‘‘ وہ رکا‘ لمبی سانس لی اور پھر رک کر بولا ’’مجھے چند ہفتے بعد ایک اور حقیقت کا ادراک ہوا‘ ہمارے معاشرے میں سوٹ اور انگریزی آپ کے تمام عیبوں اور نالائقیوں پر پردہ ڈال دیتی ہے۔
آپ کو بس انگریزی کے دس پندرہ اچھے فقرے آنے چاہییں اور آپ کے کپڑے اچھے‘ مہنگے اور صاف ستھرے ہونے چاہییں اور لوگ آپ کو عقل مند‘ ذہین اور کام یاب بھی سمجھنے لگتے ہیں اور جینئس بھی‘ مجھے جب اس کا ادراک ہوا تو میں نے انگریزی پر اپنا فوکس بڑھا لیا‘ میں روز نوٹ بک میں نئے فقرے لکھتا تھا اور پرانے دوہراتا تھا۔
میں یہ نوٹ بک ہر وقت اپنے پاس رکھتا تھا‘ نوٹ بک ایک ایسا طوطا بن چکی تھی جس میں میری جان تھی‘ میں آگے بڑھتا رہا لیکن پھر دو نئے چیلنجز آ گئے‘ میں انگریزی لکھنے اور بولنے میں اچھا نہیں تھا‘ میں نے اس کے دو حل نکالے‘ میں یاد کیے ہوئے فقروں کو لکھ کر پریکٹس کرنے لگا‘ میں روز ایک گھنٹہ انگریزی لکھتا تھا‘ اس سے میری ہینڈ رائٹنگ بھی اچھی ہو گئی اور میرے ہاتھ میں روانی بھی آ گئی۔
جب کہ بولنے کے لیے میں نے بی بی سی سننا شروع کر دیا‘ اس زمانے میں گھروں میں ریڈیو سنا جاتا تھا‘ میں روز ریڈیو پر بی بی سی کی خبریں سنتا تھا اور انگریزی کے لفظ اور فقرے سن سن کر یاد کرتا رہتا تھا‘ میں نے بعدازاں اپنے ایک کزن سے چھوٹا سا ٹیپ ریکارڈ لے لیا‘ میں خبرنامہ ریکارڈ کر لیتا تھا اور اسے بار بار سنتا تھا‘ مجھے پھر کسی نے بتایا‘ انگلینڈ سے لینگوئج کورس ملتے ہیں‘ یہ کیسٹ کی شکل میں ہوتے ہیں اور آپ سن سن کر انگریزی سیکھ لیتے ہیں۔
میرے پاس اتنے وسائل نہیں تھے کہ میں انگلینڈ سے کورس منگوا سکتا لیکن پھر اﷲ نے کرم کیا‘ میرے ایک کلاس فیلو کے بڑے بھائی لاہور میں پڑھتے تھے‘ انھوں نے بتایا لاہور میں برٹش کونسل ہے اور یہ سارے کورس اس میں موجود ہیں‘ وہ کونسل کے ممبر تھے‘ وہ مجھے وہاں سے کورس لا دیتے تھے اور میں سن سن کر سیکھتا جاتا تھا‘ وہ بہت اچھے انسان تھے‘ انھوں نے بعدازاں مجھے انگلینڈ سے کورسز منگوا دیے۔
میں نے وہ کورس اتنے سنے کہ کیسٹس گھس گئیں اور میں انگریزوں کے لہجے میں انگریزی بولنے لگا‘ میرے دوست ‘احباب اور رشتے دار مجھے انگریزوں کے لہجے میں انگریزی بولتے دیکھتے تھے تو وہ پاگل سمجھنے لگتے تھے‘ وہ میرا مذاق اڑاتے تھے‘ میں یہ دیکھ کر ڈپریشن میں چلا گیا اور خودکشی کا فیصلہ کر لیا۔
لیکن پھر ایک اورٹرن آگیا‘ میں اگلی چھٹیوں میں دوبارہ آپ کی فری کوچنگ کلاس میں چلا گیا‘ میں آپ سے وہاں ملا تو میں نے آپ کو اپنے سے زیادہ پاگل محسوس کیا‘ آپ کے بال‘ داڑھی اور ناخن بڑھے ہوئے تھے‘ دانت بھی گندے تھے اور کپڑے بھی‘ میں آپ کو دیکھ کر ڈر گیا‘ آپ حلیے سے وحشی نظر آتے تھے‘‘۔
وہ رکا اور ہنس کر بولا ’’میں نے آپ سے وجہ پوچھی تو آپ نے بتایا‘ میں آج کل پیپرز کی تیاری کر رہا ہوں‘ میرے پاس بال کٹوانے اور کپڑے بدلنے کا وقت نہیں‘ میں نے آپ سے پوچھا‘ کیا آپ لوگوں کی باتوں سے متاثر نہیں ہوتے‘ آپ نے ہنس کر جواب دیا‘ میرے بھائی انسان جب تک پاگل سمجھا نہ جائے یہ اس وقت تک ترقی نہیں کرتا‘ مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آئی تھی۔
آپ نے وضاحت کی تھی‘انسان زندگی میں جب کوئی چیز حاصل کرنا چاہے تو اس ایکسٹریم پر جانا چاہیے جہاں لوگ اسے پاگل سمجھنا شروع کر دیں‘اسے کام یابی اس وقت ملتی ہے‘ آپ کا کہنا تھا میں کل کپڑے بدل لوں گا‘ شیو بھی کر لوں گا‘ بال اور ناخن بھی کٹوا لوں گا لیکن اگرمیں نے امتحان کا موقع ضائع کر دیا تو یہ موقع شاید مجھے دوبارہ نہ ملے لہٰذا میں اس پر فوکس کر رہا ہوں‘ لوگ مجھے آج پاگل سمجھ رہے ہیں لیکن کل جب میں کام یاب ہو جاؤں گا۔
تو میرا یہی پاگل پن لوگوں کے لیے مثال بن جائے گا‘ لوگ اپنے بچوں کو میری کہانی سنایا کریں گے چناں چہ ہمیں دوسروں کی رائے پر توجہ دینے کے بجائے کام پر فوکس کرنا چاہیے‘ مجھے دوسرا نسخہ بھی مل گیا چناں چہ میں واپس آیا اور دوبارہ کام میں جت گیا‘ میں نے اب لکھنے اور بولنے دونوں کی پریکٹس شروع کر دی تھی‘‘
وہ رکا‘ لمبا سانس لیا اور اس بار اس کی آنکھوں میں آنسو تھے‘ اس نے کہا ’’سر آپ یقین کریں پورے اسکول اور پھر کالج میں مجھ سے اچھا انگریزی بولنے‘ لکھنے اور پڑھنے والا کوئی نہیں تھا‘ میں نے اس پریکٹس میں ایک اور چیز لرن کی‘ انسان اگر کسی ایک چیز میں ماسٹری حاصل کر لے تو باقی تمام فن چل کر اس کے پاس آ جاتے ہیں‘ میری انگریزی نے مجھے دوسرے تمام مضامین میں بھی مدد دی اور پھر میں ٹاپ کرتا چلا گیا یہاں تک کہ میں نے ایم بی اے کیا‘ اسکالر شپ پر باہر گیا‘ ملٹی نیشنل کمپنیوں میں کام کیا‘ پاکستان آیا‘ اپنا کام اسٹارٹ کیا اور آج اللہ تعالیٰ کے کرم سے آپ کے سامنے ہوں‘‘۔
مجھے اس کی کہانی نے ششدر کر دیا‘ میں حیران ہو گیا اور بچپن کی پڑھی ہوئی وہ کہاوت یاد آ گئی جس میں بتانے والے نے بتایا تھا ’’انسان کو لمبے چوڑے فلسفے اور دانش کی ضرورت نہیں ہوتی‘ اﷲ کا کرم ہو تو ایک فقرہ پوری نسلیں بدل دیتا ہے۔
ہم چند دوستوں نے جوانی میں شغل کے طور پر فری کوچنگ سینٹر بنایا تھا‘ ہم چھٹیوں میں اسکول کے بچوں کو اکٹھا کر کے مہینہ دو مہینہ فری پڑھاتے تھے‘ ہمارے اس اینی شیٹو نے اس جیسے نہ جانے کتنے طالب علموں کی زندگی بدل دی ہو گی‘ میں نے یہ سوچ کر پہلے فخر کیا اور پھر شرمندہ ہو گیا اور اپنے آپ سے سوال کیا میں نے اتنا بڑا اینی شیٹو آگے چل کر بند کیوں کر دیا تھا؟ میں کتنا بے وقوف ہوں‘ میں نے اس کا ہاتھ پکڑا‘ جھک کر اسے بوسا دیا اور گیلی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھ کر کہا ’’ تم میرے محسن ہو‘ تم نے ایک بار پھر مجھے ایک ایسی نیکی کے ساتھ جوڑ دیا جسے میں روزگار کی دوڑ میں بھول گیا تھا‘ تم بہت عظیم ہو‘‘۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس