آواز دو ھم ایک ہیں۔۔۔ تحریر : اکرم سہیل

آزاد کشمیر میں حالیہ عوامی حقوق کی تحریک آزاد کشمیر کے عوام کو آئین پاکستان میں مقرر کردہ اصولوں کے مطابق منگلا ڈیم سے پیدا ہونے والی بجلی کی پیداواری لاگت پربجلی دینے کے مطالبہ پر جاری تھی کہ عوام کی آواز دبانے کیلۓ ایک اور کالا قانون نافذ کر دیا گیا. شاید ان تک یہ تاریخی حقائق نہیں پہنچے کہ عصر حاضر کی تمام تر شعوری ترقی و عظمت کا راز حریت فکر اور آزادئ اظہار میں پنہاں ہے . عوامی حقوق کے حصول اور ان کالے قوانین کی منسوخی کیلئے چلنے والی تحریک, ماضی میں ریاست جموں و کشمیر میں عوامی حقوق کیلئے برپا ہونے والی ان تحریکوں کا تسلسل ہے جن میں ان تحریکوں کوکچلنے کیلئے منگ کے مقام پر زندہ انسانوں کی کھالیں کھینچی گیئں. جموں میں توہین قرآن کے واقع کے خلاف لوگ اٹھ کھڑے ہوۓ. 1931 میں سرینگر میں ڈوگرہ حکمرانوں کے ظلم کا شکار ہوتے ہوئےلوگ شہیدہوۓ. پونچھ میں زمینوں کے حقوق ملکیت کی تحریک چلی تو میرپور ڈویژن میں بطل حریت راجہ اکبر کی قیادت میں عدم ادائیگی مالیہ کی تحریک چلی, سرینگر میں شال بافی کے کارخانوں میں مزدوروں کی تنخواہیں بڑھانے کی تحریک سمیت ریاست جموں کشمیر میں عوامی معاشی حقوق کی ان تمام تحریکوں نے تاریخ میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں.
آزاد کشمیر میں حالیہ عوامی تحریک خالصتا عوامی حقوق کی تحریک تھی جس میں بجلی کے بلات میں پاکستان میں بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کی اس لوٹ مار میں پاکستان اور آزاد کشمیر کے عوام کو مال غنیمت کے طور پر لوٹا جا رہا تھا تو پاکستان کے غریبوں نے تو خود کشیوں کواس مسلہ کا حل جانا جبکہ آزاد کشمیر کے لوگوں نے اس ڈکیتی کے خلاف مزاحمت کا راستہ اختیار کیا.اس کامیاب عوامی حقوق کی تحریک کی خاص بات جو تاریخ کا حصہ بنی ہے وہ یہ ہے اس کی قیادت نے جہاں اس تحریک کو پرامن رکھا وہاں اسے پاکستان مخالف تحریک نہیں بننے دیا. پوری تحریک میں یہ تحریک چلانے والوں کی جانب سے پاکستان کے خلاف کوئی نعرہ نہیں لگا۔ حالانک پاکستان اور آزاد کشمیر کے استحصالی طبقات چاہتے تھے کہ آزاد کشمیر اور پاکستان کے عوام میں اختلافات کی دراڑیں پیدا ہوں تاکہ لوگوں کی توجہ ان کے ظالمانہ اقتصادی ، سیاسی اور سماجی نظام سے ہٹ کر علاقائی جھگڑے کی صورت اختیار کر جائے۔لیکن حالیہ عوامی تحریک کے لیڈروں کو کریڈٹ جاتا ہے کہ اس تحریک کو الحاق پاکستان یا خود مختار کشمیر کی تحریکوں کے تصادم سے دور رکھ کر اسے خالص عوامی حقوق کی تحریک بنائے رکھا. آزاد کشمیر کے لوگ 2005 میں آزاد کشمیر میں آنے والے زلزلہ میں پاکستانی عوام کی محبتیں کسی صورت میں بھلا نہیں سکتے.. پاکستانی عوام ھمیشہ کشمیریوں کی تحریک آزادی میں ان کےشانہ بشانہ رہے ہیں .اگرچہ فیڈرل حکومتوں کی پالیسیوں سےہزار اختلاف کیا جا سکتا ہے.لوگ اب یہ بات سمجھناشروع ہو گئے ہیں کہ آزادکشمیر اور پاکستانی عوام استحصالی طبقات سے اس وقت تک معاشی , سیاسی اور سماجی آزادی حاصل نہیں کر سکیں گے جبتک اس جدوجہد میں پاکستانی اور کشمیری عوام ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ظالموں کے خلاف اکھٹے نہیں چلیں گے۔ یاد رکھیں کہ پاکستان کے لوگ آپ سے زیادہ ظالمانہ نظام کی چکی میں پس رہے ہیں اور وہ مظلوم آواز بھی نہیں اٹھا سکتے اس کامیاب تحریک سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ اب اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئےکسی ریاست کے خلاف نہیں بلکہ اس ریاست کے ظالمانہ استحصالی طبقات اور اس نظام کے ذمہ داروں کے خلاف صدا بلند کرنے کا لائحہ عمل اختیار کرنا ہی واحد قابل عمل موثر طریقہ ہے “ظالموں کے خلاف ساری دنیا کے محنت کشو ایک ہو جاؤ” کا پیغام تو ہر ایک تک ضرور پہنچا ہو گا۔۔غلام احمد مہجور نے کشمیریوں کی ڈیوٹی لگائی ہوئی ہے کہ مشرق کے اندھیروں کو مٹانے کیلۓ لوگ متحد ہوکر استحصالی نظام اور ظالم طبقات کے خلاف آواز اٹھائیں گے تو کامیابی ہو گی۔ کشمیری شاعر غلام احمد مہجور کے پیغام کو شعری زبان میں یوں بیان کیا سکتا ہے.,
میری نوائے سحر رائیگاں نہ جائے گی۔
یہ پاک و ہند کے لوگوں کو بھی جگائے گی۔
یہ روشنی جو طلوع ہو گی ارضِ کاشر سے۔
۔یہ ایشیأء کے اندھیروں کو بھی مٹاۓ گی ۔
لیکن اس تحریک کے حوالے سے ایک افسوس ناک خبر یہ ہے کہ مبینہ طور کوہالہ کے مقام پر پاکستانی جھنڈے کو اتارنے کے واقعہ کو بنیاد بنا کر نفرتوں کی کاشتکاری کر کے اپنی سیاست چمکائی جا رہی ہے.جھنڈا اترتا کسی نے نہیں دیکھا لیکن اس واقعہ کو اپنا سیاسی مفاد حاصل کرنے کیلئے جتنا پھیلایا جا رہا وہ مبینہ واقع سے زیادہ نقصان پہنچا رہا ہے.اس سے مجھے ایک چرسی کا واقع یاد آ رہا ہے کہ تبلیغی جماعت والوں کی کوششوں سے اسے چرس چھڑا دی گئی .اب جماعت والے اسے اپنے ساتھ ہر مجلس میں لے جاتے اور تبلیغ سے پہلے اس چرسی کو جلسے میں کھڑا کر کے لوگوں سے کہتے کہ یہ بھائی ہر وقت چرس کے نشہ مست رہتے تھے لیکن ماشاء اللہ ہماری کوششوں سے اب اس بھائی نے چرس چھوڑ دی ہے..کچھ دنوں کے بعد چرسی بھائی نے تبلیغی جماعت والوں سے کہا کہ پہلے میرے چرسی ہونے کا علم صرف میرے محلے والوں کو تھا اب تبلیغی جماعت والوں نے مجھے سارے شہر میں بطور چرسی مشہور کردیا ہے..آزاد کشمیر کی اس سیاسی پارٹی نے بھی جھنڈہ اترنے کا معاملہ جس کا کوئی گواہ نہیں ہے اس چرسی کے واقع کی طرح سارے ملک میں پھیلا دیا ہے. بقول شاعر..,
کوئی جانتا نہیں تھا میرے عیب کو مگر..
تیری دوستی نے شہر میں مشہور کردیا..