عرب بہار کا شکار آخری ڈکٹیٹر…تحریر نعیم قاسم

2010 کے آواخر میں تیونس کا ایک ریڑھی بان سرکاری اہلکاروں کے ہاتھوں ہلاک ہو گیا تو ردعمل میں تیونس سے شروع ہونے والی عرب بہار کی تحریک پورے خطے میں پھیل گئی جس نے تیونس کے زین العابدین کا 24 سالہ ، لیبیا کے معمر قذافی کا 42 سالہ، یمن کے علی عبداللہ کا 33 سالہ، سوڈان کے جنرل البشیر اور مصر کے حسنی مبارک کے 30 سالہ ادوار اقتدار کا خاتمہ عوامی بغاوتوں اور خانہ جنگیوں سے کر دیا

_ان ڈکٹیٹرز نے جہاں اپنے اپنے عوام پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رکھے تھے وہیں اربوں ڈالرز کی کرپشن اور بدعنوانی میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی آج ان میں جنرل البشیر کے علاوہ تمام ڈکٹیٹرز فوت ہو چکے ہیں اور اب عرب بہار کا نشانہ بننے والآآخری ڈکٹیٹر بشار الاسد بھی روس فرار ہو گیا ہے بشار الاسد نے لاکھوں شامیوں کو بے گناہ جیلوں میں ڈال کر، پانچ لاکھ سے زائد شہریوں کو شہید کرنے اور 60 لاکھ کو جلاوطن کرنے کے بعد روس، حزب اللہ اور ایران کی حمایت سے عرب سپرنگ کو 14سال روکے رکھا مگراپنی ہٹ دھرمی سے ملک تباہ کر دیا حافظ الاسد کی 30 سالہ ڈکٹیٹر شپ اور چوبیس سالہ اس کے بیٹے بشار الاسد کی آمرانہ حکومت نے عوام پر ظلم و. ستم کےایسے ایسے بازار گرم کیے رکھے جو ھلاکو خان کے مظالم سےکی یاد تازہ کرتےدیتے ہیں بدنام زمانہ فوجی جیلوں میں قیدیوں پر جو مظالم ڈھائے جا رہے تھے ان کی ویڈیوز دیکھ کر انسان اافسردگی اور بے بسی کا شکار ہو کر دکھ اور غم کی اتھاہ گہرائیوں میں جا گرتا ہے لاکھوں انسانوں کے قاتل کو پناہ دے کر روس کا کہنا ہے کہ اس نے انسانی ہمدردی کے تحت بشارالاسداور اس کے خاندان کو پناہ دی ہے ____ کیسی انہونی بات ہے کہ قاتلوں کو عبرت کا نشان بنانے کی بجائے اسے پناہ دے دی
جائے روس کی بشار الاسد کو پناہ دینے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس خطے میں روسی مفادات کا تحفظ کرتا تھا لیکن روس اور ایران کی تمام تر فوجی مدد کے باوجود انقلابیوں نے شام پر اپنا کنٹرول قائم کر لیا بلاشبہ یہ اسد خاندان کے 54 سالہ دور حکومت کا خاتمہ ہے مگر اس تبدیلی سے طاقت کا توازن واضح طور پر اسرائیل کے حق میں ہو گیا ہے شام ایرانیوں اور حزب اللہ کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کر رہا تھا حزب اللہ کو تمام تر کمک شام کے راستے لبنان پہنچتی تھی اور اس کے بدلے حزب اللہ شام کے باغیوں کے خلاف جنگی کارروائیوں میں اپنے جنگجو بھیجتی تھی
یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں، غزہ میں حماس لبنان میں حزب اللہ اور عراق میں شیعہ ملیشیا کے تمام تر گروہ ایران کے دفاع کے لیے مزاحمتی محور تشکیل دیے ہوئے تھے کیونکہ ایران نے عراق کے ساتھ کئی سالوں کی طویل جنگ کے بعد دفاعی حکمت عملی بدل دی تھی وہ کسی صورت میں بھی اپنی سرزمین پر جنگ کرنے کو ترجیح نہیں دیتا ہے اسی لیے وہ مشرق وسطیٰ اور اپنے ہمسایہ ممالک میں اپنی پراکسیز کی جنگی اور مالی معاونت کیے رکھتا ہے حماس نے ایرانی پشت پناہی پر اسرائیل پر گوریلا حملہ کیا تو اسرائیل نے اوپن جنگ شروع کر دی تو ایران کی ریگولر فوج فلسطین کے لیے لڑتی یا مسلمانوں کی نام نہاد فوج جس کے سربراہ جنرل راحیل شریف ہیں وہ فلسطین کے دفاع میں آگے بڑھتے تو شاہد اسرائیل فلسطین میں اتنی جان و مال کی تباہی نہ کر پاتا _8 دسمبر کے بعد جب سے شام میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی ہے اسرائیل نے اس کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے شام پر کئ حملے کیے ہیں اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان کے مطابق اسرائیلی فضائیہ نے شام پر 480 فضا ئی حملے کیے ہیں اور شام کے درجنوں طیارے، ہیلی کاپٹرز، آنٹی ایر کرافٹ بیر ئیرز، ائیر فیلڈز اور فوجی سٹرکچرز تباہ کر دیئے ہیں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے حکم کے مطابق اسرائیلی فوج نے گولان کی پہاڑیوں کے بفر زون پر قبضہ کر لیا ہے جو 1974 میں جنگ بندی کے معاہدے کے بعد اقوام متحدہ کی فورسز کی نگرانی میں قائم کیا گیا تھا
شام کے دارالحکومت پر انقلابیوں کے قبضے کے بعد شام میں نصیریہ فرقے سے تعلق رکھنے والی دس سے تیرہ فیصد اقلیت کا 54 سالہ دور اقتدار ختم ہو گیا ہے شام میں نصیریہ فرقہ کے لوگ جو اپنے آپ کو علوی کہتے ہیں دوسرے ملکوں میں پائے جانے والے علویوں سے مختلف عقائد رکھتے ہیں یہ فرقہ حضرت علی کو خدا مانتا ہے اپنے عقائد کو چھپا کر رکھتا ہے مسلمان تہواروں کے ساتھ کرسمَس اور نوروز کے تہوار بھی مناتا ہے اور شیعہ علوی دھڑے سے اپنے آپ کو الگ تصور کرتا ہے روزمرہ کی زندگی میں یہ فرقہ مکمل لبرل اور سیکولر رسم و رواج کا قائل ہے حافظ الاسد کے وقت سے یہ اقلیتی فرقہ شام کے تمام اہم فوجی اور سول اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر قابض رہا شام میں اس فرقہ کے لوگ بحیرہ روم کے ساتھ جڑی ساحلی پٹی کے ساتھ لاذقیہ اور طرطوس میں آباد ہیں انکی کچھ تعداد ترکی کے صوبہ حطائی اور لبنان کے جنوب اور شمال میں بھی موجود ہے لیکن ان کے عقائد کے برعکس ہمارے ہاں علوی کہلانے والے اپنے آپ کو حضرت علی کی نسل سے تعلق قرار دیتے ہیں اور انہیں زیادہ تر شیعہ اسلام کی ایک الگ شاخ تصور کیا جاتا ہے لیکن یہ حضرت علی کو نبی کریم صل اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد مسلمانوں کا پہلا امام مانتے ہیں اور تمام اسلامی عقائد پر مکمل عمل پیرا ہوتے ہیں جبکہ شامی علوی اس کے برعکس ہیں اور اپنے گمراہ کن عقائد جسکو وہ تقیہ کے فلسفے کے تحت چھپا کر رکھتے ہیں مکمل طور پر خود مختار اور لبرل فلسفہ حیات کے علمبردار ہیں خیال رہے کہ صدر بشار الاسد کی جانب سے اہم سیاسی اور عسکری عہدوں پر شامی علوی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد ہی تعینات کیے جاتے تھے دمشق اور حلب کے سنی تاجروں کے ساتھ اتحاد کر کے علوی اشرافیہ نے اپنا
اثرو رسوخ معیشت کے ساتھ تمام سیکورٹی اور سول محکموں میں بے حد بڑھا لیا تھا
سخت گیر اسد نواز شیعہ ملیشیا میں زیادہ بڑی تعداد شدت پسند علوی اقلیتی فرقے کی تھی حافط الاسد اور بشار الاسد بھی اسی فرقے سے تعلق رکھتے تھے اس لیے وہ ان پر حکومتی معاملات میں زیادہ انحصار کرتے تھے روئٹرز کے مطابق شام میں فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگز میں بے حد اضافہ ہونے کی بڑی وجہ بشار الاسد کا اس فرقے سے تعلق تھا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس فرقے کے بہت سارے لوگ بشار الاسد کے حمایتی نہیں تھے
دمشق پر حملے کی قیادت کرنے والے گروپ ہیت تحریر الشام (تنظیم آزادی، شام) مختلف جنگجو گروپوں کا مجموعہ ہے 42 سالہ محمد الجولانی جن کا اصل نام احمد الشرع ہے نے دسمبر کے پہلے ہفتے میں حمص، حلب اور دمشق پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ قبضہ کر کے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا محمد الجولانی نے 2011 میں جبھتہ النصر کے نام سے ایک جنگی تنظیم قائم کی جو شروع میں القاعدہ سے منسلک تھی 2016 میں احمد الشرح نے القاعدہ سے تعلق ختم کرکے دیگر جنگی گروپوں سے اتحاد قائم کرنے کے بعد ہیت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) قائم کر لی امریکہ ترکی، اقوام متحدہ اور دیگر کئی ممالک میں اسے دہشت گرد قرار دیا گیا ہے جو اب امید ہے کہ اسے دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے امریکہ اور ترکی نکلوا دے گا کیونکہ اس کے سربراہ نے شام میں پرامن اقتدار کی منتقلی کے لیے سب کے لیے عام معافی کا اعلان کیا ہے امن اور استحکام کیلئے گزشتہ حکومت کے اراکین کی طرف بھی تعاون کا ہاتھ بڑھایا ہے اور مارچ 2025 تک عبوری وزیراعظم کے طور پر حلب میں گورنس کرنے والے محمد البشیر کا نام سامنے آیا ہے محمد البشیر حلب یونیورسٹی سے الیکٹریکل انجنیرنگ کے گریجویٹ ہیں اس کے ساتھ قانون اور شریعت کی بھی ڈگریاں رکھتے ہیں حلب میں انہوں نے شہر کے معاملات بڑی خوش اسلوبی سے چلائے تھے اور اب انہوں نے سابقہ حکومت کے اہل اور تجربہ کار افراد کو بھی حکومت میں شامل کرنے کا عندیہ دیا ہے خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق شام کی پارلیمان کا کہنا “8 دسمبر تمام شامیوں کی زندگی میں ایک تاریخی دن تھا _ہم قانون اور انصاف کے تحت ایک بہتر مستقبل کی طرف ایک نئے شام کی تعمیر کے لیے لوگوں کی خواہش کی حمایت کرتے ہیں”
شام میں امن اور استحکام نئی عبوری حکومت کی پہلی ترجیح ہے ہم سب کی دعا ہے کہ شام میں امن اور سلامتی کے نئے دور کا آغاز ہو سبھی انقلابیوں میں اتحاد و اتفاق قائم رہے اور ایک وسیع البنیاد مستقل جمہوری حکومت دمشق میں قائم ہو اور عوام کی زندگیوں میں امن و سکون آجائے وگرنہ اسرائیل اور شام کے دوسرے ہمسایہ ممالک اس کے نسلی بنیادوں پر تین چار ٹکرے کرنے کے آرزو مند ہیں احمد الشرع نے بڑی سمجھ داری اور سیاسی حکمت عملی کا مظاہرہ کیا ہے لگتا ہے کہ وہ اب ایک جنگجو سے سیاسی مدبر بن کر شام کو بحرانوں سے نجات دلانے میں کامیاب ہو جائیں گے کیونکہ انہوں نے صدام حسین کی غلطی دھرانے کی بجائے نیلسن منڈیلا کے فلسفہ زندگی کو اپنانے کا فیصلہ کیا ہے دشمنوں کو شام کے اجتماعی مفاد میں معاف کر کے تعاون کا ہاتھ بڑھانا بے حد اعلیٰ ظرفی اور انسانیت کی بھلائی کا عظیم کارنامہ ہے کاش پاکستان کے طاقت کے نشے میں چور حکمران بھی نوجوان احمد الشرع کی بصیرت سےکچھ سیکھ لیں کہ ہر کام طاقت سے نہیں کرنا چاہیے ملکی معاملات معاف کرنے، عدل و انصاف اور اتحاد و یگانگت سے طے کرنے سے ہی ملک وقوم ترقی و کامرانی کی منازل طے کرتے ہیں