شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ میں اسے ’’آرکی ٹیکٹ بادشاہ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے‘شاہ جہاں کا والد جہانگیر عشق باز تھا‘اس نے پوری زندگی ملکہ نورجہاں کی زلف کے سائے میں گزار دی‘ نور جہاں کا اصل نام مہرالنساء تھا‘ ایران سے تعلق رکھتی تھی اور اپنے وقت کی خوب صورت ترین عورت تھی‘ جہانگیر کے حرم کا حصہ بننے سے قبل وہ بنگال کے مغل گورنر شیرافگن کی بیگم اور اس کی بیٹی بانو بیگم کی ماں تھی‘ لاہور کا بانو بازار نورجہاں کی بیٹی کے نام پر بنایا گیا تھا‘شہزادی بانو بھی مغل محل میں پلی تھی‘ نور جہاں نے اس کی شادی اپنے سوتیلے بیٹے شہریار سے کر دی‘ یہ جہانگیر کا سب سے چھوٹا صاحب زادہ تھا‘ شاہ جہاں کا تیسرانمبرتھا‘ نور جہاں اپنے داماد شہریارکو بادشاہ بنانا چاہتی تھی اور اس کے لیے وہ دن رات لابنگ کرتی رہی ‘ جہانگیر اپنی بیوی کے زیراثر تھا۔
اس کا ایک قول پورے ملک میں مشہور تھا ’’شراب کا ایک پیالہ‘ آدھا سیر بھنا ہوا گوشت اور نور جہاں کا دیدار ہندوستان کے شہنشاہ کے لیے کافی ہے‘‘ لیکن وہ اس محبت کے باوجود یہ سمجھتا تھا بادشاہت کا اصل حق دار شہزادہ خرم ہے مگر اس میں بیگم کے سامنے انکار کی جرات نہیں تھی لہٰذا ولی عہد اور اگلے بادشاہ کا معاملہ الجھ گیا‘ صورت حال جب زیادہ تشویش ناک ہو گئی تو ایک دن بادشاہ نے دربار عام میں شہزادوں کے امتحان کا اعلان کر دیا‘ ولی عہد کا فیصلہ اس امتحان کے بعد ہونا تھا‘ دربار لگا‘ چاروں شہزادے بادشاہ کے سامنے کھڑے ہو گئے اور شہر کے عمائدین دم سادھ کے بیٹھ گئے۔
بادشاہ نے شہزادوں سے صرف ایک سوال پوچھا ’’اگر تمہیں ہندوستان کا تخت مل جائے تو تم اس سلطنت کا کس طرح خیال رکھو گے؟‘‘ تین شہزادوں نے دعویٰ کیا ہم ہندوستان کا ماں کی طرح خیال رکھیں گے لیکن جب شہزادہ خرم کی باری آئی تو اس نے نہایت ادب سے عرض کیا ‘بادشاہ سلامت اگر مجھے حکومت مل گئی تو میں ہندوستان سے محبوبہ کی طرح پیار کروں گا‘ یہ دعویٰ روٹین سے ہٹ کر تھا لہٰذا بادشاہ نے اسے وضاحت کا حکم دے دیا‘ شہزادہ خرم کا جواب تھا محبوبہ سے محبت دنیا کی واحد محبت ہے جس میں انسان دوسروں کی جان لے بھی سکتا ہے اور دے بھی سکتا ہے لہٰذا میں محبوبہ کی طرح ہندوستان کو بچانے‘ بنانے اور سنوارنے کے لیے جان دے بھی دوں گا اور لے بھی لوں گا‘ یہ جواب بادشاہ اور عوام دونوں کو پسند آ گیا اور یوں شہزادہ خرم ہندوستان کا اگلا بادشاہ نامزد ہو گیا‘ جہانگیر 29 اکتوبر 1627 کو کابل سے کشمیر جاتے ہوئے آزاد کشمیر کے علاقے بھمبر میں فوت ہو گیا۔
شراب اس کا جگر پی گئی تھی‘ بادشاہ کی لاش آگرہ جانی تھی لیکن سفر لمبا اور موسم خراب تھا‘ میت اتنی دورنہیں جا سکتی تھی چناں چہ بادشاہ کی انتڑیاں اور اعضاء بھمبر کے باغسر قلعے میں دفن کر دیے گئے جب کہ میت کو بمشکل لاہور تک پہنچایا جا سکا‘ لاہور کے مضافات میں شاہ درہ میں ایک خوب صورت باغ تھا‘ ملکہ نورجہاں کی اجازت سے بادشاہ کو وہاں دفن کر دیا گیا‘ شہزادہ خرم اس وقت آگرہ سے دور تھا‘ نور جہاں نے اس کی غیرموجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شہریار کو بادشاہ بنا دیا‘ شہزادہ خرم فوری طور پر دارالحکومت پہنچا‘ شہریار کو گرفتار کیا ‘ اس کا سر اتارا اور ہندوستان کا تخت سنبھال لیا‘ اس نے اپنی سوتیلی ماں نور جہاں کو بھی شاہ درہ میں محصور کر دیا‘ نور جہاں کا انتقال بعد ازاں 17دسمبر 1645 کو شاہ درہ میں ہوا اور اسے بھی وہیں دفن کر دیا گیا۔
شہزادہ خرم نے 1628کو شاہ جہاں کے نام سے حکومت کا آغاز کیا‘ شاہ جہاں حقیقتاً ہندوستان کا محسن ثابت ہوا اور اس نے واقعی ہندوستان کا محبوبہ کی طرح خیال رکھا‘ پورے ملک میں باغات‘ محل اور مسجدیں بنوائیں‘ آپ ٹھٹھہ کی شاہ جہاں مسجد سے لے کر تاج محل تک ہندوستان کی کسی اہم عمارت کی طرف دیکھ لیں‘ آپ کو اس میں شاہ جہاں کے فٹ پرنٹس ملیں گے‘ شاہ جہاں 1628سے 1658 تک 30سال بادشاہ رہا‘ اس دوران اس کی نظر زمین کے جس ٹکڑے پر پڑ گئی وہ شاہ کار بن گیا‘ دہلی کی جامع مسجد بھی ان میں سے ایک ہے‘ شاہ جہاں دارالحکومت آگرہ سے واپس دہلی لے آیا تھا۔
اس نے شہر سے ذرا سے فاصلے پر اپنے نام سے شاہ جہاں آباد کے نام سے الگ شہر آباد کیا اور اس شہر میں 1656میں سرخ پتھروں سے ہندوستان کی سب سے بڑی مسجد بنوائی‘ یہ مسجد آج تک اسلام اور مغل سلطنت کی نشانی بن کر بھارت میں موجود ہے‘ شاہ جہاں نے سید عبدالغفار بخاری کو اس کا پہلا امام مقرر کیا تھا‘ مغل بادشاہ بدلتے رہے لیکن شاہی مسجد قائم بھی رہی اور اس کے بخاری اماموں کا سلسلہ بھی‘ 1947میں مسلمانوں نے وطن الگ کر لیا لیکن شاہی مسجد بھارت کے دارالحکومت میں اپنے شکوہ کے ساتھ قائم رہی‘ آج کل سید احمد بخاری شاہی مسجد کے امام ہیں۔
پچھلے جمعہ یہ خطبہ دیتے وقت بھارتی مسلمانوں کی صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے رو پڑے‘ ان کا کہنا تھا 1857کے بعد ہندوستان کے مسلمانوں پر برا وقت آیا اور پھر اس نے جانے کا نام نہیں لیا‘ ہم آج 1947 سے بھی بدتر حالات کا شکار ہیں اور اس کے بعد سید احمد بخاری نے رونا شروع کر دیا‘ شاہی مسجد میں اس وقت چار پانچ ہزار نمازی تھے‘ ان کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے‘ شاہ جہاں دہلی سے215کلومیٹر کے فاصلے پر آگرہ کے تاج محل میں مدفون ہے‘ مجھے یقین ہے امام سید احمد بخاری کے آنسوؤں اور آہوں کی نمی اس تک بھی پہنچی ہو گی اور قبر میں اس نے بھی محسوس کیا ہو گا میری مسجد کے نمازیوں اور میرے حسب نسب کے لوگوں کے ساتھ میری سلطنت میں کیا سلوک ہو رہا ہے؟۔
مجھے 2014 میں دہلی جانے کا اتفاق ہوا تھا‘ میں شاہی مسجد بھی گیا‘ مسجد کے اردگرد مسلمانوں کے گھر اور دکانیں ہیں‘ آپ یقین کریں ان کی حالت دیکھ کر آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ گلیوں میں گرد‘ کیچڑ اور کوڑا کرکٹ کے انبار تھے‘ دکانیں اور مکان گندے تھے اور ہر چہرے پر بھی عسرت اور غربت ملی ہوئی تھی‘ مسلمانوں کی آنکھیں اندر دھنسی تھیں اور چہرے پچکے ہوئے تھے‘ میں نے وہاں گھومتے پھرتے اندازہ کیا مسلمان اپنے ناموں کے بجائے ’’نک نیم‘‘ سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں‘ میں نے جس سے بھی پوچھا‘ اس نے اپنا جامو‘ راموں‘ میمو‘ شامو اور لیلوں بتایا‘ میرے ساتھ میرے ایک سکھ دوست تھے‘ یہ دلی وال ہیں‘ ان کے بزرگ تقسیم کے وقت پشاور سے نکل کر دہلی میں آباد ہو گئے۔
سردار صاحب اردو‘ پنجابی اور پشتو تینوں زبانیں جانتے تھے‘ میں نے ان سے مسلمانوں کے نک نیمز کی وجہ پوچھی تو انھوں نے عجیب جواب دیا‘ ان کا کہنا تھا مسلمان بھارت میں خود کو محفوظ نہیں سمجھتے لہٰذا یہ مسلمان ناموں کے ساتھ ساتھ ایسے کامن نام بھی رکھ لیتے ہیں جن سے ان کے مذہب کا اندازہ نہ ہو سکے‘ یہ اگر اپنا نام محمد بتائیں گے تو پکڑے جائیں گے لہٰذا یہ ایک دوسرے کو میمو کہتے ہیں‘ اسی طرح یہاں عمر امر‘ جہانگیر گیرو اور زینب زینو بن جاتی ہے‘ آپ یقین کریں میں اس کے بعد دیر تک گلی میں پھرتے مسلمانوں کو دیکھتا رہا اور ان کی بے چارگی پر افسوس کرتا رہا‘ میں نے اس کے بعد امام صاحب سے بھی ملاقات کی‘ یہ مجھے اٹھ کر ملے اور دیر تک میرا ہاتھ پکڑ کر کھڑے رہے۔
ان کا کہنا تھا تم لوگ خوش قسمت ہو کم از کم بے خوف ہو کر پھرتے ہو جب کہ ہمیں دیکھو ہم اپنے گھروں سے باہر نہیں نکل سکتے‘امام صاحب کی بات درست تھی کیوں کہ بھارت معاشی لحاظ سے ترقی کر رہا تھا لیکن مسلمانوں کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی جا رہی تھی‘ آج حالات 2014 سے بھی بدتر ہیں‘ مسلمانوں کے لیے نوکریاں نہ ہونے کے برابر ہیں‘ بزنس میں یہ کبھی تھے اور نہ آج ہیں‘ ان کی تعلیم بھی واجبی ہوتی ہے‘ کیوں کہ اول انھیں اسکولوں میں داخلہ نہیں ملتا اور اگر مل جائے تو ہندو لڑکے انھیں بے عزت کر کے بھگا دیتے ہیں اور سیاست کے دروازے بھی ان پر بند ہیں‘ کانگریس میں پھر بھی مسلمانوں کی گنجائش تھی لیکن بی جے پی میں ایک بھی مسلمان ایم پی نہیں ہے لہٰذا پھر بھارت میں مسلمانوں کے لیے صرف تین شعبے بچ جاتے ہیں۔
یہ صفائی ستھرائی‘ مزدوری‘ مکینکی‘ کاشتکاری یا پھر ڈرائیوری کریں‘ دوسرا فلم انڈسٹری میں ان کی کھپت ہوتی تھی‘ماضی میں اردو زبان‘ شاعری‘ موسیقی اور اداکاری میں مسلمانوں کی گنجائش ہوتی تھی لیکن جب سے سینما ساؤتھ کی طرف شفٹ ہوا یہ فیلڈ بھی مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئی اور مسلمانوں کے لیے تیسرا پیشہ یا شعبہ کرائم رہ گیا تھا چناں چہ ان کے پاس سروائیول کے لیے ڈان یا بھائی بننے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا‘ آپ کو بھارت میں زیادہ تر بھائی اور دہشت گرد مسلمان کیوں ملتے ہیں؟ کیوں کہ مسلمانوں کے پاس کوئی دوسرا آپشن موجود ہی نہیں۔
جب ان کی لڑکیوں کو ہندو اٹھا کر لے جائیں گے یا گائے کا گوشت کھانے کا الزام لگا کر کسی بھی نوجوان کو سرعام قتل کر دیا جائے گا یا پھرمسجدیں گرا کر مندر بنا دیے جائیں گے یا پھر مسلمانوں کو سرعام تغلق یا دہشت گرد کہا جائے گا تو پھر ان کے پاس کیا آپشن بچ جاتا ہے؟ اور بھارت میں اس وقت یہی ہو رہا ہے‘ ہمارے ایک سابق آرمی چیف کو یورپ میں کسی بھارتی مسلمان نے روک کر کہا تھا ’’سر آپ جب کشمیر میں کچھ کرتے ہیں تو اس کا خمیازہ بھارت کے مسلمانوں کو بھگتنا پڑتا ہے‘ آپ کچھ بھی کرنے سے پہلے ہم 25 کروڑ مسلمانوں کے بارے میں ضرور سوچ لیا کریں‘‘ اس بے چارے کی بات سو فیصد درست تھی‘ ہم سب ایک کنٹرولڈ اور بہتر ماحول میں رہ رہے ہیں جب کہ بھارتی مسلمان اذیت ناک زندگی گزار رہے ہیں‘ یہ شاہ جہاں کی بنائی مسجد کے سائے میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔
میری حکومت سے درخواست ہے ہم سب میں سے جو بھی شخص پاکستان کے خلاف بات کرے آپ اسے چند دنوں کے لیے بھارت بھجوا ئیں اور اسے مسلمانوں کے کسی محلے میں ٹھہرا دیں‘ اسے تب پاکستان کی قدر ہو گی‘ وہ اس وقت جانے گا ہم کتنی بڑی جنت میں رہ رہے ہیں‘اسے اس وقت معلوم ہو گا اﷲ تعالیٰ نے ہم 25 کروڑ مسلمانوں پر کتنا رحم‘ کتنا کرم کیا ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس