اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب کا غزہ میں اسرائیلی جارحیت بند کرنے، فلسطینیوں کے مصائب کو کم کرنے کا مطالبہ

 نیویارک (صباح نیوز)پاکستان نے اقوام متحدہ میں غزہ میں انسانیت سوز صورتحال کو اجاگر کرتے ہوئے غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی کی جنگ کو فوری ختم اور فلسطینیوں کی تکالیف و مصائب کو کم کرنے کے لیے اقدامات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے جنرل اسمبلی میں فلسطین کی صورتحال پر دوبارہ شروع ہونے والے خصوصی اجلاس میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کو امریکا کی طرف سے ویٹو کئے جانے پر پاکستان کی جانب سے گہری مایوسی کا اظہار کیا، یہ قرارداد سلامتی کونسل کے 10 منتخب اراکین نے سپانسر کی، جس میں غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ایسی کوئی دلیل نہیں جو بے بس فلسطینیوں کے قتل عام کو روکنے کے لیے کئے گئے فیصلے کو روکنے کا جواز فراہم کر سکے۔ پاکستانی مندوب نے کہا کہ جنرل اسمبلی کو اب چارٹر کے مطابق غزہ میں فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ کرنے اور سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی طرف سے اس تنازعے پر منظور کی گئی متعدد قراردادوں پر عمل درآمد کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی عدالت انصاف کی طرف سے کئے گئے فیصلے پر عملدرآمد کے لئے اپنی ذمہ داری کو پورا کرنا چاہیے۔دیگر مندوبین نے بھی غزہ کی پٹی کی صورتحال میں ویٹو کے استعمال کی مخالفت کی اور خطے میں واقعات کو غیر سیاسی کرنے پر زور دیا۔

اپنے ریمارکس میں پاکستانی مندوب نے کہا کہ 400 دنوں سے دنیا نے غزہ میں اسرائیل کی جانب سے ہونے والے فلسطینی شہریوں کے اندھا دھند قتل عام کا مشاہدہ کیا ہے،غزہ میں اسرائیلی حملوں میں 44 ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں جبکہ ایک لاکھ سے زیادہ زخمی ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان، لبنان میں جنگ بندی کا خیرمقدم کرتا ہے، لیکن غزہ میں قتل عام اور شام میں حملے جاری ہیں،انہوں نے خبردار کیا کہ پورے مشرق وسطی میں ایک وسیع جنگ کا خطرہ مسلسل منڈلا رہا ہے۔

انہوں نے فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی(یو این آ ر ڈبلیو اے)کی حمایت کرتے ہوئے اسرائیل کی جانب سے عالمی ادارے کی امدادی کارروائیوں کو روکنے کی کوششوں کی مذمت کی۔انہوں نے کہا کہ یہ واحد ادارہ ہے جو غزہ، مغربی کنارے اور دیگر جگہوں پر لوگوں کو انسانی امداد اور ریلیف کی یقینی فراہمی کی صلاحیت رکھتا ہے۔ انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی جنگ نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ درحقیقت تقریبا ہر دوسرے جغرافیائی اور سیاسی تناظر میں قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کی آواز بلند کرنے والوں کی ملی بھگت سے کچھ لوگوں کے خلاف استثنا کے ساتھ جارحیت اور نسل کشی کا ارتکاب کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے استثنی نے عالمی نظام کی بنیادوں کو تباہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، جو ہم نے تقریبا 80 سال پہلے تخلیق کیا۔ انہوں نے کہا کہ کیا فسطائیت اور نسل پرستی سے لڑنے والوں، ہولوکاسٹ کا شکار ہونے والوں کی یادیں اتنی مختصر ہیں کہ وہ بے بس فلسطینی عوام کے خلاف اکیسویں صدی کے اس قتل عام کا جواز پیش کر سکیں؟۔پاکستانی مندوب نے کہا کہ اسرائیلی قیادت نے غزہ میں مسلسل قتل و غارت اور مسلسل قبضے،تشدد اور بھوک کے ذریعیفلسطینیوں کی بے دخلی اور نسل کشی جارح اسرائیلی آباد کاروں اور فوج کے ذریعہ غیر مسلح فلسطینیوں کے خلاف دو ریاستی حل کو یکسر مسترد کرنے اور فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کے حق کو ختم کرنے اور مغربی کنارے کے الحاق کے بارے میں اپنے تاریک وژن کا اعلان کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس تاریک نقطہ نظر کے اثرات عرب اور مسلم دنیا پر مرتب ہوں گے۔ عالم اسلام کے لوگ اسرائیل کے جرائم کو نہیں بھولیں گے۔ اسرائیلی قبضے کے خلاف عوامی مزاحمت ختم نہیں ہوگی بلکہ اس میں شدت آئے گی۔مشرق وسطی کے تنازعات کا پرامن حل بدقسمتی سے مزید مشکل ہو جائے گا ۔ پاکستانی مندوب منیر اکرم نے اسرائیلی انتہا پسندوں کے تاریک نقطہ نظر کو عملی جامہ پہنانے کے لیے درکار اقدامات پر غور کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ انہیں یہ باور کرانا چاہیے کہ نسل کشی سے استثنی حاصل نہیں ہوتا، جارحیت اور قبضے کے نتائج ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عرب اور اسلامی ممالک کے رہنماں نے ہتھیاروں کی فراہمی روکنے، تجارت ختم کرنے اور اسرائیل کی اقوام متحدہ کی رکنیت پر نظرثانی کے اقدامات کے نتائج کی وکالت کی ہے، جس پر اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی طرف سے سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ عرب اسلامک سمٹ گروپ کے ایک حصے کے طور پر پاکستان دو ریاستی حل کے نفاذ کے لیے عالمی اتحاد کے آغاز کا خیرمقدم کرتا ہے۔ اس عمل کے ذریعے اور یہاں اقوام متحدہ میں ہمیں سیاسی حقائق پیدا کرنا ہوں گے جو دو ریاستی نتائج کی ناگزیریت کو یقینی بنائیں گے۔پاکستانی مندوب نے کہا کہ اس مقصد کے لئے پاکستان فلسطین کی ریاست کو ممکنہ طور پر سرکاری طور پر تسلیم کرنے ،ہ فلسطین کا جلد اقوام متحدہ کا مکمل رکن بننے اور 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مشتمل ایک خودمختار اور متصل فلسطینی ریاست جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو ، کے قیام کے لیے فیصلہ کن اقدامات کرنے کے لیے بین الاقوامی کانفرنس کے انعقاد پر زور دیتا ہے۔