شام تنازعہ اور سنی شیعہ نفرت کی لہر
اسرائیل اور لبنان کے درمیان جنگ بندی اس اعتبار سے خوش آئند ہے کہ اسکے نتیجے میں جنوبی لبنان کے ان لاکھوں افراد کو کچھ راحت نصیب ہوگی جو گزشتہ 14 ماہ سے بمباری کا عذاب سہہ رہے ہیں۔ غزہ کے مزاحمت کاروں نے بھی لبنان اسرائیل فائربندی کا خیر مقدم کیا ہے لیکن فلسطینی عوام اندیشہ ہائے دوردراز میں مبتلا ہوگئےہیں۔خیال ہے کہ لبنان سے فارغ ہونے والی چار ڈویژن فوج غزہ کا رخ کریگی اور نیتھن یاہو لبنان میں شکست کا بدلہ اہل غزہ سے لینگے۔ لبنانی راکٹوں کی وجہ سے غزہ کے لوگوں کو بالواسطہ مدد مل رہی تھی جو اب ختم ہوچکی ہے۔ غزہ میں قحط کی صورتحال مزید سنگین ہوگئی ہے۔گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی ایجنسی World Food Program(WFP)نے انکشاف کیا کہ غزہ کے لوگوں کو دن میں صرف ایک وقت کھانا میسر ہے اور وہ بھی نان اور شوربہ یا چند کھجور۔ زیرزمین پانی میں نمکیات کا تناسب اتنا بڑھ گیا ہے کہ یہ کھاری پانی آبنوشی کے قابل نہیں، اہل غزہ کو فی کس صرف 3 لٹر پانی یومیہ مل رہا ہے۔
دوسری طرف شامی صدر بشار الاسد اور انکے مخالفین کے درمیان لڑائی میں شدت آجانے سے سنی شیعہ کشیدگی بھی عروج پر ہے۔یہاں فروری1982 میں بشار الاسد کے والد حافظ الاسد نے اخوان المسلمون کے خلاف ایک خونی آپریشن کیا تھاجسکے نتیجے میں حماہ شہر ملبے کا ڈھیر بن گیا اور خواتین و بچوں سمیت ایک لاکھ سے زیادہ اخوانی قتل ہوئے۔جب 17دسبمبر 2010 کو تیونس سے آزادی جمہور کی تحریک شروع ہوئی جسے ربیع العربی یا Arab Spring کا نام دیا گیا تو شام بھی اسکی لپیٹ میں آیا اور اردن کی سرحد پر واقع شہر، درعا سے طلبہ نے تحریک شروع کی۔ صدر بشارلاسد نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسے کچلنے کیلئے طاقت کا بہیمانہ استعمال کیا اور اسے سنی شیعہ رنگ دیدیا۔ چنانچہ ایران بشار کی پشت پر کھڑاہوگیا اور لبنان کے شیعہ عسکری دستوں نے حکومت مخالف مظاہرین کو کچلنے میں بشار فوج کی بھرپور مدد کی۔
حافظ الاسد کے دور میں حماہ کی شامت آئی تھی۔ اس بار حکومتی مخالفین نے اسکے شمال میں ترکیہ کی سرحد پر حلب (Aleppo) اور ادلب کو اپنا مرکز بنایا۔ جنوری 2012 سے شامی افواج اور حزب اللہ نے مخالفین کے خلاف خوفناک آپریشن کا آغاز کیا اور روسی فضائیہ نے بمباری کرکے دونوں شہر کو کھنڈر بنادیا۔ ایک اندازے کے مطابق حلب اور ادلب میں 3 لاکھ سے زیادہ افراد مارے گئے اور 2016 تک مزاحمت کاروں نے حلب خالی کردیا۔ مارچ 2020 میں معاہدہ کرکے حکومتی مخالفین ادلب سے بھی نکل گئے۔ اس جنگ میں بھاری جانی اور مالی نقصان کیساتھ شیعہ سنی کشیدگی بلکہ نفرت اتنی سخت ہوگئی کہ شامی مزاحمت کاروں کی عسکری تنظیم هيئة تحرير الشام یا HTSکے کچھ عناصر نے اہل غزہ کو اپنا دشمن کہنا شروع کردیا کہ ایران اور لبنانی، غزہ مزاحمت کاروں کے حامی تھے۔
عجیب اتفاق کہ اسرائیل لبنان فائر بندی کے دوسرے روز HTSنے حلب پر زبردست حملہ کردیا۔ شامی فوج اس اچانک کاروائی کیلئے تیار نہ تھی اور صرف چار دن میں HTSنے حلب اور ادلب پر قبضہ کرلیا۔ قبضہ چھڑانے کیلئے روسی فٖضائیہ ان دونوں شہروں پر شدید بمباری کررہی ہے اور خبروں کے مطابق اسرائیل سے لڑنے والے لبنانی مزاحمت کاروں نے بشارالاسد کی نصرت کیلئے اب حلب اور ادلب کا رخ کرلیا ہے۔ شیعہ سنی نفرت کا یہ عالم ہے کہ شامی حزب اختلاف کے رہنما فہد المصری نے اسرائیلی چینل 12 سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ‘ہم اسرائیلی قیادت سے درخواست کرتے ہیں کہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شام میں ایرانی اور لبنان کے ایران نوازعناصر کو نشانہ بنایا جائے’
یہ صورتحال اہل غزہ کیلئے انتہائی پریشان کن ہے۔ انکی نظریاتی وابستگی بشارالاسد کے ظلم کا نشانہ بننے والے شام کے اخوانیوں سے ہے اور وہ پرزور و عملی حمائت پر لبنانی مزاحمت کاروں کے بھی مشکور ہیں جبکہ شیعہ سنی کے نام سے ہونے والے نئی صف بندی نے ایران اور لبنانی مزاحمت کاروں کو اخوان دشمن بشارالاسد کی پشت پر لاکھڑا کیا ہے۔