بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈا پور کی مشکلات…نصرت جاوید


یہ بات تحریک انصاف کے پرستاروں کو سمجھانا بہت مشکل ہے کہ اسلام آباد میں داخلے کے بعد ڈی چوک کے بہت قریب پہنچ جانے کے باوجود بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈاپور منگل کی رات ’’محاذ جنگ‘‘ چھوڑ کر پیر سوہاوہ کی پہاڑی سے ہری پور کی جانب’’فرار‘‘ ہوگئے تو وجہ اس کی حکومت کا خوف نہیں تھا۔ پولیس اور رینجرز کے ہاتھوں گرفتاری یا خدانخواستہ کسی پرتشدد حملے کے بجائے ان دونوں کو خوف اپنے ساتھ لائے قافلے سے تھا۔ آئے تو وہ ان دونوں کی قیادت میں تھے۔ اسلام آباد داخل ہوجانے کے بعد مگر تحریک انصاف کے ’’انقلابی‘‘ کارکنوں نے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لئے۔ وہ مصر رہے کہ بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈاپور اپنی محفوظ گاڑیوں سے باہر نکلیں اور ہجوم کی قیادت سنبھال کر پیدل چلتے ہوئے ڈی چوک میں قافلے سمیت داخل ہوجائیں۔
بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈا پور اگر اپنے ساتھ لائے ہجوم کی خواہش کے مطابق اپنی گاڑیوں سے نکل کر ڈی چوک داخل ہونے کی کوشش کرتے تو شاید وہاں تعینات پولیس اور رینجرز انہیں شدت سے روکنے کی کوشش نہ کرتے۔ بشریٰ بی بی بہرحال سابق وزیر اعظم اور ان دنوں پاکستان کی مقبول ترین سیاسی شخصیت کی اہلیہ ہیں۔ علی امین گنڈاپور پاکستان کے حساس ترین صوبہ خیبرپختونخواہ کے منتخب وزیر اعلیٰ ہیں۔ خدانخواستہ انہیں روکنے کی کوشش میں کوئی انہونی ہوجاتی تو ملک بھر میں ویسے ہی ہنگامے پھوٹ پڑتے جو دسمبر2007ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد رونما ہوئے تھے۔ علی امین گنڈاپور کی وفاقی پولیس کے ہاتھوں ’’پٹائی‘‘ کے مناظر خیبرپختونخواہ میں یہ سیاسی بیانیہ تشکیل دینے میں آسانی فرا ہم کرتے کہ ’’پنجابی قیادت‘‘ نے پشتونوں کی منتخب قیادت کا ’’احترام‘‘ نہیں کیا۔ علی امین کے ساتھ میرے منہ میں خاک کسی انہونی سے خیبرپختونخواہ کو ایک ’’شہید‘‘ مل جاتا۔ بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈاپور نے نہایت دانش مندی سے ’’میدان جنگ‘‘ سے کھسک جانے کا فیصلہ کیا۔ عاشقان عمران اس کی بابت ندامت وشرمندگی محسوس کریں گے۔ سیاسی قیادت کی تاہم چند ذمہ داریاں ہوتی ہیں جن سے اجتناب بحرانوں کے فیصلہ کن مراحل میں ممکن نہیں۔
بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈاپور کی پسپائی کو دانش مندانہ عمل ٹھہرانے کے باوجود میں یاد دلانے سے باز نہیں رہ سکتا کہ 24نومبر کے حوالے سے تحریک انصاف کی قیادت ہی نے ہیجان بھڑکایا تھا۔ بغیر کسی تیاری کے عمران خان نے اڈیالہ جیل سے یہ حکم جاری کردیا کہ اس تاریخ کو ملک بھر سے ان کے چاہنے والے اسلام آباد پہنچ جائیں اور ان کی رہائی تک اس شہر میں دھرنا دئے بیٹھے رہیں۔
اپنے چاہنے والوں کو ’’ڈواور ڈائی‘‘ کے الفاظ کے ساتھ آخری معرکہ کو اْکساتے بانی تحریک انصاف کو یاد ہی نہ رہا کہ صرف ایک ماہ قبل بھی خیبرپختونخواہ کے وزیر اعلیٰ ایک بڑا لشکر لے کر اسلام آباد کے لئے روانہ ہوئے تھے۔ پنجاب پولیس نے اس لشکر کو اٹک پار کرنے کے بعد ایک مقام تک محدود کردیا۔ اپنے ساتھ لائے ہجوم کو غچہ دے کر علی امین گنڈا پور مگر اسلام آباد پہنچ گئے۔ وہاں کے خیبرپختونخواہ ہائوس میں دو سے کم گھنٹے گزارنے کے بعد ’’غائب‘‘ ہوگئے اور کئی گھنٹوں کی پراسرار گمشدگی کے بعد پشاور نمودار ہوئے تو اپنے لاپتہ ہونے کے بارے میں ایک ناقابل اعتبار داستان گھڑی۔ اسلام آباد پر ایک اور یلغار کے لئے انہیں مناسب وقفہ درکار تھا۔
خان صاحب سیمابی طبیعت کے مالک ہونے کی وجہ سے مسلسل حالت انقلاب میں رہتے ہیں۔ 24نومبر کی ’’فائنل کال‘‘ دینے کے ساتھ ہی انہوں نے بشریٰ بی بی کو پشاور بھیج دیا۔ وہاں پہنچ کر ابھی تک ’’گھریلو‘‘ خاتون ’’سیاسی‘‘ ہوگئیں۔ ملک بھر میں پھیلے تحریک انصاف کے مقامی رہ نمائوں خاص طورپر اس جماعت کی حمایت سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پہنچے لوگوں کو واضح الفاظ میں حکم دیا کہ وہ اپنے شہروں سے بڑے ہجوم کے ساتھ پشاور کے لئے روانہ ہوں اور اسلام آباد تک سفر کی لمحہ بہ لمحہ تیاری کی ویڈیوز ’’قیادت‘‘ کو پہنچائیں۔ سیدھے لفظوں میں تحریک انصاف کی مقامی قیادتوں کو بتادیا گیا کہ اگر وہ اپنے ہمراہ کارکنوں کی خاطر خواہ تعداد لانے میں کامیاب نہ ہوئے تو پارٹی انہیں ’’ڈس اون‘‘ کردے گی۔
مذکورہ پیغام کے بعد وفاقی حکومت کا یہ سوچنا بچگانہ حماقت تھی کہ اب کی بار اکتوبر کے برعکس اسلام آباد پر یلغار کے لئے نسبتاََ بڑا اور نفسیاتی اعتبار سے جذباتی ہجوم جمع ہوجائے گا۔ پاکستان ہی نہیں جنوبی ایشیاء کی تاریخ سمجھاتی ہے کہ مقبول قیادتوں کو حکومتیں جب جیل میں ڈال دیں تو ان کی اہلیہ یا بیٹی ان قیادتوں کے پرستاروں کو اپنے گرد مزاحمت کی خاطر اکٹھا کرلیتی ہیں۔ 1964ء میں کوئی سیاستدان ایوب خان کو صدارتی انتخاب میں للکارنے کے قابل نہیں تھا۔ ان کی اکثریت قائد اعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کے در پر حاضر ہوئی اور انہیں بطور ’’مادر ملت‘‘ فوجی آمر کے مقابلے کے لئے اتارا گیا۔ پیپلز پارٹی کے 1967ء میں قیام کے بعد ایوب حکومت کی مزاحمت کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو گرفتار ہوئے تو بیگم نصرت بھٹو میدان میں اتریں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے خان عبدالولی خان کو گرفتار کیا تو ان کی اہلیہ بیگم نسیم ولی خان نے مزاحمت کی مشعل روشن کر دی۔ جنرل مشرف نے نوازشریف کا تختہ الٹ کر انہیں جیل میں ڈالا تو محترمہ کلثوم نواز میدان میں اتریں۔ ماضی کی سیاسی قیادتوں کو برا بھلا کہنے کے باوجود عمران خان بھی بالآخر اپنے مشکل وقت میں بشریٰ بی بی کو سیاسی میدان میں اتارنے کو مجبور ہوئے۔
بشریٰ بی بی کو سیاسی میدان میں اتارنے کے بعد مگر انہیں اپنے کارکنوں کو سمجھنے کا مناسب وقت فراہم نہیں کیا۔ عمران خان جیل میں بیٹھ کر اندازہ نہیں لگاسکے کہ ان کے عاشقان تحریک انصاف کی اس قیادت سے نفرت کرتے ہیں جو فروری 2024ء کے انتخاب کی بدولت قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پہنچی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ’’عمران خان کی وجہ سے‘‘ معتبر ہوئے خواتین وحضرات دل سے اپنے قائد کی رہائی کے لئے ’’ڈو اور ڈائی‘‘ کو تیار نہیں۔ جذبات میں ’’سولو ‘‘ ہوئے کارکنوں کو میدان میں اتارنے سے پہلے بشریٰ بی بی کے لئے انہیں جاننا اور ان پر کامل کنٹرول حاصل کرنا لازمی تھا۔ عمران خان صاحب نے مگر بشریٰ بی بی کو اس ضمن میں مناسب وقت ہی نہ دیا۔ منگل کی شب ’’میدان جنگ‘‘ سے کھسک جانا ایسے حالات میں ان کی مجبوری تھی۔

بشکریہ روزنامہ نواے وقت