غزہ سات اکتوبر 2023 کے بعد سے جہاں قتل عام اور فلسطینیوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے، وہیں منظم انداز میں ماحولیاتی بیخ کنی المعروف Ecocideکے ذریعے غزہ کو انسانی حیات کیلئے غیر موزوں بنایاجارہاہے۔
بحیرہ روم کے کنارے 365 مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل یہ پٹی 17 سال سے ناکہ بندی کا شکار ہے۔ اس عرصے میں آبنوشی و آبپاشی کے منصوبوں پر کام کی اجازت نہیں۔ سیوریج کے نظام کی توسیع تو دور کی بات ناکہ بندی کی وجہ سے معمول کی مرمت بھی ناممکن ہے۔
حملے کے بعد ناکہ بندی سخت کرکے بجلی اور ایندھن کی فراہمی بھی معطل ہے۔ اسرائیل نے گنجان آبادیوں میں خوفناک بنکر بسٹر استعمال کرکے بلند و بلا عمارتوں کو انکے مکینوں کے ساتھ زمیں بوس کردیا۔ملبے سے اٹھنے والے گردوغبار نے زندہ رہ جانے والوں کیلئے سانس لینا مشکل کردیا ہے۔ اسرائیل نے ہدف بناکر آبی ذخائر، سیوریج پلانٹ اور ماحولیاتی ڈھانچے تباہ کیئے ۔ایک سال کے دوران غزہ پر 80 ہزار ٹن بارود برسایا گیا جسکی وجہ سے زمین اس حد تک بانجھ ہوگئی ہےکہ پوری پٹی میں اب خودرو گھانس بھی نہیں اگتی۔ نکاسی آب کا نظام تباہ ہوجانے سے غلیظ و متتفن مواد سڑکوں پر بہہ رہا ہے جن میں ہسپتالوں سے خارج ہونے والاطبی کچرا بھی شامل ہے۔
غزہ میں آبنوشی کیلئے 310 کنوئیں کھودے گئے ہیں۔ان کنوؤں سے حاصل ہونے والے پانی کا مجوعی حجم دولاکھ چالیس ہزار مکعب میٹر ہے۔اسکے علاوہ اسرائیلی کمپنی میکروٹ (Mekorot)سے 45 ہزار مکعب میٹر اوربحیرہ روم پر نصب نمکین پانی صاف کرنے کے پلانٹ سے 17 ہزار مکعب میٹر میٹھا پانی یومیہ حاصل ہوتا ہے۔ان تین لاکھ مکعب میٹر پانی پر غزہ کی پوری آبادی گزارہ کررہی تھی یعنی نسل کشی کی حالیہ مہم سے پہلے یہاں پانی کا فی کس استعمال 85 لٹر یومیہ تھا۔ ذخائر و وسائل تباہ ہوجانے کے بعد اب ہر شہری کو صرف 3 سے 15 لیٹر پانی یومیہ میسر ہے۔
غزہ کا 45 فیصد رقبہ زراعت اور مویشی بانی کیلئے استعمال ہوتا تھا۔ محفوظ buffer zoneبنانے کیلئے اسرائیلی فوج نے سن 2000 میں بہت بڑا زرعی رقبہ ہتھیالیا۔ اقوام متحدہ کے ادارے Food and Agriculture Organization (FAO) کے مطابق اس سال ستمبر تک غزہ کی 68 فیصد زرعی اراضی بنجر ہوچکی ہے۔ بمباری کے علاہ اسرائیل کے بلڈوزروں نے کھیت و باغات کو کھدیڑ دیا، زیتون کے دس لاکھ اور کھجور و انجیر کے ہزاروں پھلدار درخت جڑ سے اکھاڑ پھینکے گئے۔
مویشیوں کےباڑوں اور مرغی فارم کیساتھ بحیرہ روم کے کنارے بنائے گئے مچھلی فارم تاراج کردئے گئے اور ماہی گیروں کی کشتیاں نذرآتش کردی گئیں۔
مغربی دنیا کاربن سے پاک توانائی پر زور دے رہی ہے جبکہ غزہ کاربن کی آماجگاہ ہے۔ ماہرین کے مطابق 100 مربع میٹر عمارت کے منہدم ہونے سے جو 1000 ٹن ملبہ جنم لیتا ہے اس سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کا تخمینہ 1 ٹن سے زیادہ ہے۔ غزہ میں تباہ ہونے والی سینکڑوں بلند و بالا عمارات کے بکھرے ملبے کا حجم چار کروڑ 20 لاکھ ٹن ہے جس میں 10 ہزار سے زیادہ لاشیں دبی ہوئی ہیں۔
(مصنف ماہر ارضیات ہونے کے ساتھ ساتھ قومی و بین القوامی امور پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ سماجی موضوعات پر بھی مستقل لکھتے ہیں۔)