پابندیاں یا قوانین…سہیل وڑائچ


تاریخ کا سبق یہ ہے کہ پابندیاں ترقی کو روکتی ہیں جبکہ قانون ،آزادی اور برداشت ترقی کو جنم دیتے ہیں۔ مشرق و مغرب ماضی میں نئی سوچ، سائنس اور ٹیکنالوجی پر پابندیاں لگاتے رہے جس سے انسانیت کی ترقی رکی رہی۔ تحمل، برداشت، قوانین اور آزادی کا دور شروع ہوا تو سائنس اور ٹیکنالوجی کو فروغ ملا آج کی جدید دنیا کی تشکیل ممکن ہوئی۔

تضادستان میں وی پی این کو اسلامی نظریاتی کونسل نے غیر اسلامی قرار دیا ہے حالانکہ اسلام اور سائنس کا سرے سے کوئی تضاد نہیں البتہ علما ءکا سائنس سے ضرور تضاد ہے۔ یاد کریں کہ ترکی میں گھڑیال کا تحفہ آیا تو اسے بدعت قرار دیدیا گیا اور ولی عہد نے اسے چوراہے میں رکھ کر توڑ ڈالا مگر آج ہر عالم دین نے گھڑی باندھی ہوئی ہے۔ کیمرہ ایجاد ہواتو تصویر کے خلاف فتوے آئے، ترکی میں تصویر کو کافرانہ قرار دیا گیا ۔ہمارے خطے کے علماء تو چند سال پہلے تک تصویر اتروانے کوگناہ قرار دیتے تھے، جماعت الدعوۃ والے سرعام ٹی وی توڑ کر ثواب دارین حاصل کیا کرتے تھے اب ہر عالم دین ٹی وی کی سکرین پر جلوہ افروز ہونا باعث فخر سمجھتا ہے ۔ حدتو یہ ہے کہ کافی (Coffee) تک کو بھی کافر قرار دیا گیا ،ترکی میں کافی پر فسادات ہوئے بعد میں پتہ چلا کہ کافی تو مغرب سے آتی ہی نہیں یہ تو افریقن مسلم ممالک سے آتی ہے۔ پرنٹنگ پریس کو 5 سو سال تک مسلم ممالک میں داخل نہ ہونے دیا گیا ،ہاتھ سے لکھی ہوئی کتابوں سے کام چلایا جاتا رہا کہ یہ شیطانی مشین کہیں اسلامی آرٹ خطاطی اور کتابت کو نقصان نہ پہنچا دے۔ پینٹ کوٹ پہننے، انگریزی سٹائل کے بال کٹوانے اور لائوڈ سپیکر تک پر اعتراضات کئے گئے جواب بودے اور احمقانہ ثابت ہو چکے ہیں۔

سوشل میڈیا نے دنیا کے ہر ملک کو پریشان کر رکھا ہے صرف تضادستان نہیں دنیا بھر میں اس کی ہولناکیوں پر مضمون باندھے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کی سب سے بڑی خرابی نامعلوم افراد کو لوگوں میں خبریں پھیلانے کے حق کا مل جانا ہے اور وہ جھوٹی سچی خبریں بغیر کسی تصدیق و توثیق کے چلا کر لوگوں کو گمراہ کرسکتے ہیں جبکہ مین سٹریم میڈیا کے اندر چیک اینڈ بیلنس ہے ، حکومت کے قوانین ہیں۔ ہر میڈیا کمپنی کے اپنے ضوابط ہیں اور پھر عوامی احتساب کا راستہ بھی کھلا رہتا ہے۔ سوشل میڈیا بے مہار اور بےلگام ہے جھوٹ پھیلاتا ہے، انتشار کا باعث بنتا ہے، اس انتشار کی وجہ سے وقتی طور پر ملکی ترقی بھی متاثر ہوتی ہے مگر میری حقیر رائے میں اس شتر بے مہار کا علاج پابندی نہیں بلکہ اس پر قوانین و ضوابط کا اطلاق ہے۔ آج کل ریاست اور حکومت کا کام ترقی کے آگے بندباندھنا نہیں بلکہ کسی معاملے کو ریگولیٹ کرنا اور کسی دوسرے ایشو کو ڈی ریگولیٹ کرنا ہی رہ گیا ہے۔

ماضی کا تجربہ یہ ہے کہ آپ کسی بھی چیز پر پابندی لگائیں گے تو وہ اور بھی زیادہ مقبول ہو گی لوگ چوردرازوں سے یا چھپ چھپا کر اس پابندی کو توڑیں گے۔ سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں پھیلا کر اور گالیاںدے کر بدنام کیا جاتا ہے ،میں خود کئی بار اس نفرت انگیز جرم کا نشانہ بنا ہوں لیکن پھر بھی میرے خیال میں سوشل میڈیا یا وی پی این پر پابندی لگانے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا بلکہ مزید پیچیدہ ہو گا ،بہترین طریقہ یہ ہے کہ برطانیہ سوشل میڈیا کے حوالے سے جو قوانین و ضوابط ترتیب دے رہا ہے انہی کو اپنا لیا جائے تاکہ یہ بھی شور نہ پڑے کہ پاکستان میں آزادیاں محدود ہوگئی ہیں نہ کوئی یہ کہہ سکے کہ وی پی این پر پابندی سے انکے بزنس کو نقصان پہنچ رہا ہے ۔

پابندیوں کے فلسفے کی بنیاد میں ہی ایک خرابی مضمر ہے اور وہ یہ کہ پابندی کی زد میں وہ بھی آجاتا ہے جو کوئی غلط کام نہیں کر رہا ہوتا اور وہ بھی آتا ہے جو غلطی کر رہا ہوتا ہے۔ فرض کریں وی پی این پر پابندی جاری رہتی ہے تو اسکی زد میں وہ بیچارا بھی آجائے گا جو اس جدید ایجاد سے ملک کیلئے لاکھوں کا زرمبادلہ کما رہا ہے اور وہ شرپسند بھی اس کی زد میں آ جائے گا جو فتنہ وفساد پھیلا رہا ہے۔ ریاست کا فریضہ ہے کہ وہ ایسے قوانین لائے کہ انتشار پھیلانے والے پر پابندی لگے اور زرمبادلہ کمانے والے کو سہولتیں ملیں۔ ہمارے جیسے ملک میں انتشاری تو پابندیوں کے باوجود چور دروازوں سے کام نکال لیتے ہیں اور بے چارے شریف کاروباری سب کچھ ہار بیٹھتے ہیں۔

امت مسلمہ کی گزشتہ 6صدیوں کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ ہم نے نئی سوچ، نئی ایجادات اور نئے زمانے کے طور طریقوں کو مکمل طور پر مسترد کردیا حالانکہ جاپانی اور چینی معاشروں نے جدید دنیا کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ اپنی ثقافتی اور مذہبی رسوم و رواج کو مطابقت دے ڈالی۔ ہمیں بھی اب پابندیاں لگانے کے بجائے نئی ایجادات اور نئی سوچ کو ریگولیٹ کرنے یا نظم و ضبط میں لانے کی ضرورت ہے، مسترد کرنے سے ہم سوشل میڈیا اور وی پی این کے فوائد سے بھی محروم ہو جائیں گے، ہم سائنس، نئی ایجادات اور ترقی کو روک نہیں سکتے ، روکنے کے عمل سے ہم پیچھے رہ جائیں گے اور دنیا آگے نکل جائے گی۔

آئی ٹی کے شعبے میں بھارت ہم سے بہت آگے ہے مگر پاکستان میں آئی ٹی کی روز افزوں ترقی سے یہاں بھی بہت سی کمپنیاں اپنے کاروبار کھول رہی ہیں ہمیں فیصلے فوری ضرورت کے تحت نہیں دور رس نتائج کو ذہن میں رکھتے ہوئے کرنے چاہئیں۔ سوشل میڈیا کو منضبط کرلیا جائے، ریگولیشن میں لایا جائے تو یہی منفی ہتھیار ہمارا مثبت ہتھیار بن سکتا ہے۔

آج کی دنیا میں سوشل میڈیا کی بے محابا آزادی کا نقصان مین سٹریم میڈیا کو ہو رہا ہے، تضادستان کی میڈیا انڈسٹری شدید مالی خطرات کا شکار ہے، مین سٹریم میڈیا پر قوانین اور ریگولیشنز کی بھرما رہے، آئے روز جرمانے اور سرزنش کی جاتی ہے جبکہ سوشل میڈیا فائروال کے باوجود فیک نیوز پھیلانے میں مصروف ہے۔ اگر حکومت صرف رائج قوانین سے کام لے کر فیک نیوز پھیلانے والوں کو سزائیں دے تو دِنوں میں فرق پڑ جائے گا۔ لندن میں قاضی فائز کے ساتھ بدتمیزی کرنے والے سوشل میڈیا جنگجو آزاد ملک برطانیہ میں رہتے ہیں ان کو نہ ڈر ہے نہ خوف اس لئے وہ حد سے گزر جاتے ہیں۔ حکومت پاکستان نے سخت موقف اختیار کیا قانونی راستہ اختیار کیا تو دو درجن ملزموں میں سے سات نے باقاعدہ معذرت اور معافی کا اعلان کردیا۔ ثابت ہوا کہ پابندیاں نہیں قانون سازی اور موثر عمل درآمد مسئلے کا حل ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ