پس نقاب…تحریر:بنت قمر مفتی


سکول کے اساتذہ کی ماہانہ میٹنگ تھی۔ اساتذہ کی مشکلات، بچوں کے مسائل اور سٹاف کی ضروریات کے بارے میں بات چیت کی گئی۔ سکول کی بہتر کارکردگی کے لئے کچھ اقدامات زیر بحث لائے گئے ۔
مہرین کو اس پرائیویٹ سکول میں بحیثیت استانی کام۔کرتے دو ماہ ہوئےتھا۔ اس سے پہلے بھی وہ ایک سکول میں کچھ ماہ کام کر چکی تھی۔ وہ یہاں کی پرنسپل سے بہت متاثر تھی کہ وہ بچوں کے معیاری تعلیم کے لئے کوشاں ہیں۔ہر استاد کی کارکردگی پر پرنسپل صاحبہ کی کڑی نظر تھی۔
” آپ کو ہرنسپل صاحبہ بلا رہی ہیں” چپڑاسی نے مہرین کو اطلاع دی ۔
“دیکھیں مہرین بچے استاد کے لکھے ہوئے پر یقین کرتے ہیں۔ چاہے آپ ایک نقطہ بھی اضافی لکھیں وہ اسے صحیح سمجھیں گے۔ اگر آپ انکی غلطی کی تصحیح نہیں کریں گی تو وہ کسی اور کے بتانے پر بھی اسے درست نہیں سمجھیں گے” انہوں نے مہرین کی چیک کی گئی کاپیاں دیکھتے ہوئے کہا
“بچوں کا یقین ہوتا ہے کہ استاد کو سب علم ہے۔ اسی لئے ان کا کام ہوش و حواس سے چیک کیا کریں۔مجھے امید ہے آپ آئیندہ حتیاط کریں گی”
” میم آپ میری ائیڈیل پرنسپل ہیں۔ میں نے پہلے بھی سکول میں کام کیا ہے لیکن آپ کے ساتھ کام کرکے مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے۔” مہرین نے کاپیاں اٹھا کر آفس سے جاتے ہوئے کہا ۔
گزرتے وقت کے ساتھ مہرین کی لگن اور شوق کو پرنسپل صاحبہ نے اکثر سراہتی تھیں۔
” بہترین استاد بننا مہرین کی خواہش ہے اور وہ پر امید تھی کہ پرنسپل صاحبہ سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔
سالانہ امتحانات کے نتائج کی تیاری کا مرحلہ جاری تھا۔ ۔ پرنسپل صاحبہ چیک شدہ پرچہ جات کو اپنی تسلی کے لئے خود بھی دیکھا کرتی تھیں ۔ مہرین کے مضمون کے پرچہ جات دیکھتے ہوئے پرنسپل صاحبہ پریشان ہوگئیں.
“مہرین یہ رزلٹ دیکھا ہے آپ نے اپنے مضمون کا۔ اتنا برا رزلٹ, اتنے بچے فیل, آپ نے کیا پڑھایا ہے بچوں کو؟ مہرین ہکا بکا پرنسپل کابدلا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
“جواب دیں پڑھایا نہیں بچوں کو” پرنسپل نے قدرے غصے سے کہا۔
“میم ان بچوں میں آگے بڑھنے کی صلاحیت نہیں ہے میں نے بہت کوشش کی ہے لیکن ۔۔۔ ” مہرین کی بات مکمل نہ ہو پائی تھی ۔پرنسپل صاحبہ بول پڑیں۔ ”
آپ کو ندازہ بھی ہے میرا کتنا نقصان ہوگا۔ ان پرچوں پر نظر ثانی کریں۔ یہ بچہ فیل نہیں ہونے چاہئے۔ اس کے اور بھی بہن بھائی یہاں پڑھتے ہیں۔ ایک بھی فیل ہوا تو یہ سکول تبدیل کرلیں گے“