کراچی (صباح نیوز)جماعت اسلامی سندھ کے امیر وسابق ایم این اے محمد حسین محنتی نے پیپلزمیڈیکل ہیلتھ اینڈ سائنس فار وومین یونیورسٹی کے ماتحت نرسنگ اسکول کی ڈاکٹر پروین رند کے ساتھ ہراسانی،تشدد کے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے متاثرہ طالبہ کو انصاف فراہم کرنے ،ملوث ملزمان کیخلاف سخت کاروائی کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ کے تعلیمی ادارے لڑکیوں کیلئے تعلیم گاہ کی بجائے مقتل گاہ بن چکے ہیں، نائلہ رند، نمرتاچندانی ،نوشین شاہ کے بعد پروین رند کے ساتھ واقعے نے سندھ کے وزیرتعلیم اور حکومت کی سب اچھا ہے کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔
انہوں نے ایک بیان میں مزید کہا کہ سندھ کا صوبہ جہاں پر پہلے ہی تعلیمی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں اور لڑکیوں کیلئے تعلیم حاصل کرنا تو جوئے شیر کے مترادف ہے ایسے میں جب نمرتا کماری، نائلہ رند، نوشین شاہ اور پروین رند کی طرح لڑکیوں کے ساتھ زیادتی، قتل اور خودکشی کے واقعات کا تسلسل ہو تب کوئی بھی شخص اپنی بیٹیوں کو ان تعلمیمی اداروں میں داخل کروانے سے قبل ہزار بار سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے، ان اداروں میں آئے روز کسی نا کسی لڑکی کے ساتھ ہراسمنٹ، اغوا اور تشدد کے واقعات رونما ہوتے ہیں جبکہ بے شمار واقعات ایسے ہیں جن میں خاندان اور ہراسمنٹ کی شکار لڑکیاں رپورٹ درج نہیں کرواتے۔ ڈاکٹر نمرتا آصفہ ڈینٹل کالج لاڑکانہ کی فائنل ایئر کی طالبہ تھیں جن کی نعش ہاسٹل سے 16 ستمبر2019کو برآمد کی گئی۔
ایک سال بعد اسی کالج میں میڈیکل سیکنڈ یئر کی طالبہ نوشین شاہ کی نعش 24ستمبر 2021 کی صبح پنکھے سے لٹکی ہوئی ملی، جن کی ڈی این اے رپورٹ میں کپڑوں اور جسم پر ایک ہی مرد کے اجزا ملنے کا ہولناک انکشاف بھی ہوچکا ہے۔ اس سے قبل سندھ یونیورسٹی ماروی ہاسٹل میں دادو کے علاقے میہڑ سے تعلق رکھنے والی طالبہ نائلہ رند بھی اپنے روم میں مردہ پائی گئی جس کی موت کا سبب خودکشی قرار دیا گیا۔ تازہ ترین واقعہ پیپلزمیڈیکل یونیورسٹی نواب شاہ کا ہے پروین رند حراسمنٹ کا شکار ہوئی ہیں، متاثرہ لڑکی کی آنسوں نے ہر شہری کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ آخر سندھ کے تعلیمی اداروں میں درندگی کے واقعات کب ختم ہونگے، ایسا لگتا ہے جیسے یہ ادارے کسی مافیا کے قبضے میں ہہیں جہاں پر کسی کی عزت محفوظ نہیں ہے، پروین رند کے جسم پر تشدد کے نشانات کی میڈیکل رپورٹ میں تشدد اور گلا گھونٹنے کی تصدیق ہوچکی ہے، سندھ کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ایسے جرائم پیشہ گروہ سرگرم ہیں جو ان اداروں میں زیرتعلیم لڑکیوں کو امتحانات میں پاس کرنے، نمبرز زیادہ یا کم کرنے کی آڑ میں جنسی طور پر ہراساں اور بلیک میل کرتے رہتے ہیں اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیز بھی بنائی گئیں لیکن ایسے واقعات کی روکتھام کی بجائے ان میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
ایسے ہولناک واقعات پر ابھی تک کسی یونیورسٹی انتظامیہ اور نہ ہی سندھ حکومت نے کوئی ایکشن لیا ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکے کہ وہ ایسے واقعات کو روکنے کیلئے کتنے سنجیدہ ہیں۔ بے حس حکمرانوں کو شاید اس بات کا اندازہ نہیں جس کی وجہ سے نواب شاہ سے لیکر لاڑکانہ تک عفت ماب بہنوں کی عزت اور جانیں دائو پر لگی ہوئی ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ ایسے تمام واقعات کی شفاف اور غیرجانبدارانہ انکوائری کروائی کرکے ملوث مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے، یونیورسٹیوں کی انتظامیہ پر مشتمل کسی بھی کمیٹی پر پروین رند جیسی لڑکیوں کو اعتماد نہیں ہے ،جب تک اس طرح کے واقعات کی شفاف تحقیقات نہیں ہونگی، تعلیمی اداروں میں بیٹھے جنسی بھیڑیوں کو سزا نہیں ملے گی، ، تب تک ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔اسلئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے گھنائونے واقعات میں ملوث ملزمان کو سخت سزائیں دی جائیں تاکہ سندھ کے تعلیمی اداروں میں بچیاں بنا کسی عدم تحفظ کے اپنا تعلیمی سلسلسہ جاری رکھ سکیں۔جماعت اسلامی سندھ متاثرہ پروین رند اور ان کے خاندان کے ساتھ ہے اور انہیں انصاف دلانے کیلئے ہر سطح پر بھرپور کوشش کریں گے۔