اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے کہا ہے کہ ہائی کورٹ کو کیس کے کسی مقررہ وقت میں فیصلہ کرنے کے حوالہ سے ہدایات جاری نہیں کرسکتے۔ خاندانی خرچ کی ادائیگی کے حوالہ سے ہمیں مداخلت نہیں کرنی چاہیئے ،ہائی کورٹ نے قراردیا ہے کہ فیملی کورٹ نے درخواست پر 80ہزارروپے ماہانہ خرچ مقررکیا ہے، ہم اس میں مداخلت نہیں کرسکتے، ہائی کورٹ بھی مداخلت نہیں کرسکتی، اگر فیملی کورٹ اورٹرائل کورٹ جوماہانہ خرچ مقرر کرے گی اگر ہم اس میں مداخلت کریں گے تو پھر یہ سلسلہ ختم نہیں ہوگا۔ اگر کسی کے خلاف ایکس پارٹی فیصلہ ہوا ہے تواہم اس کو نوٹس جاری نہیں کریں گے۔ایک کیس میں ٹرائل کورٹ کو وراثت کے معاملہ کا 8ماہ کے اندر، اندر فیصلہ کرنے کاحکم۔جبکہ چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے فائنل اورسپلمنٹری کاز لسٹ میں شامل 32کیسز کی سماعت 52منٹ میں مکمل کرلی۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل2رکنی بینچ نے بدھ کے روز کیسز کی سماعت کی۔بینچ نے منارس وردیگر کی جانب سے عمر خطاب اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے ڈاکٹر عدنان خان اور مدعا علیہان کی جانب سے مسعودالرحمان بطور وکیل پیش ہوئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ درخواست 15رو ز زائدالمعیاد ہے، وکیل اس حوالہ سے کیسز کے فیصلے پڑھ بعد میں اس کیس کوسنتے ہیں۔بعد ازاں بینچ نے درخواست گزار کے وکیل کے دلائل سننے کے بعدمدعا علیہان کونوٹس جاری کردیا۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ اگر کسی کے خلاف ایکس پارٹی فیصلہ ہوا ہے تواہم اس کو نوٹس جاری نہیںکریں گے۔بینچ نے میجر (ر)طارق لودھی کی جانب سے مسماعت خالدہ جیلانی کے لواحقین کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔
چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہناتھاکہ وکیل کے غلط مشورے کی وجہ سے درخواست 193دن تاخیر سے دائر ہوئی۔ عدالت نے قراردیا کہ وکیل کا غلط مشورہ درخواست تاخیر سے دائر کرنے کی وجہ کے طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا۔عدالت نے درخواست خارج کردی۔بینچ نے عائشہ ثاقب کی جانب سے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈسیشنز جج، لاہور اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار خاتون ذاتی حیثیت میں سپریم کورٹ لاہوررجسٹری سے ویڈیو لنک کے زریعہ پیش ہوئیں۔ چیف جسٹس کادرخواست گزار خاتون سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ خاندانی خرچ کی ادائیگی کے حوالہ سے ہمیں مداخلت نہیں کرنی چاہیئے ہائی کورٹ نے قراردیا ہے کہ فیملی کورٹ نے درخواست پر 80ہزارروپے ماہانہ خرچ مقررکیا ہے، ہم اس میں مداخلت نہیں کرسکتے۔
درخواست گزارخاتون کاکہنا تھا کہ گزشتہ چارسال کے دوران کسی نے یہ کوشش نہیں کہ تعین کرے کہ ثاقب کی تنخواہ کتنی ہے،کم ازکم 30ہزار ریال تنخوا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہائی کورٹ بھی مداخلت نہیں کرسکتی، اگر فیملی کورٹ اورٹرائل کورٹ جوماہانہ خرچ مقرر کرے گی اگر ہم اس میں مداخلت کریں گے تو پھر یہ سلسلہ ختم نہیں ہوگا۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ ٹرائل کورٹ نے درست خرچ مقررکیا ہے۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم سوچتے ہیں پھر حکم جاری کرتے ہیں۔ بینچ نے زرین علی کی جانب سے محمود علی اوردیگرکے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ درخواست 25روز تاخیر سے دائر کی گئی ہے۔
چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہم کہہ دیتے ہیں کہ جلد کیس سماعت کریںاورختم کریں۔ چیف جسٹس کاحکم لکھواتے ہوئے کہنا تھا کہ ڈپٹی ایڈمنسٹریٹر متروکہ وقف املاک بورڈ تمام فریقین کو بامعنی انداز میں سن کر 4ماہ میں کیس کافیصلہ کریں۔ چیف جسٹس نے قرةا لعین، مسمات سفینہ کوثر، ایمن صبیحہ، آصمہ بی بی، مسمات سنبل،مسمات روبینہ رفیق، مسمات کوثر بی بی اور مسمات صائمہ سلیم کے کیسز میںبغیردلائل سنے درخواستیں منظور کرلیں۔ بینچ نے ریجنل پولیس آفیسر ،ملتان اوردیگر کی جانب سے سید وصی حیدر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب وسیم ممتاز ملک نے پیش ہوکربتایا کہ معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے ، عدالت نے استدعا ہے کہ ہائی کورٹ کو جلد فیصلہ کرنے کی ہدایات دی جائیں۔
چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہائی کورٹ کو ہدایات جاری کرنا مناسب نہیں ہوگا، رجسٹرارلاہور ہائی کورٹ کیس سننے والے بینچ کے سامنے ہماراحکمنامہ رکھیں اور متعلقہ جج کیس کا جلد فیصلہ کریں۔بینچ نے محمد امین کی جانب سے پروفیسر ڈاکٹر عبدالرحمان اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کادرخواست گزار سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا آپ کااسم شریف۔اس پر درخواست گزار کاکہناتھا کہ میرا نام پروفیسر ڈاکٹر عبدالرحمان ہے۔ عدالت نے درخواست گزار کووکیل کرنے کے لئے وقت دیتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔
بینچ نے کرنل (ر)اسرارمحمد ملک کی جانب سے قمرنواز ملک، ملک شہزاد مجید ٹوانہ اوردیگر کے خلاف دائر دودرخواستوں پر سماعت کی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ وراثتی زمین بیچی نہ گئی ہوتوکوئی بھی وارث 20کیا40سال بعد بھی اپنا حصہ مانگ سکتا ہے۔ جسٹس شاہد بلال حسن کادرخواست گزارکے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھاکہ مشورہ دیتا ہوں کہ درخواست پر زورنہ ہم ٹرائل کورٹ کو ہدایات جاری کردیتے ہیں۔ عدالت نے قراردیا کہ درخواست ہائی کورٹ کے فیصلے میں کوئی لاقانونیت یا بے قاعدگی ثابت نہیں کرسکے اس لیے درخواست خارج کی جاتی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ سپریم کورٹ کافیصلہ موصول ہونے کے 8ماہ کے اندر، اندر کیس کافیصلہ کرے۔